کی مزید وضاحت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے: ((إن المیت یعذب ببعض بکاء أهله علیه)) [1] ’’ میت کو زندوں کے بعض قسم کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘ اِمام بخاری رحمہ اللہ (متوفیٰ256 ھ)کی تبویب میں ان تمام دلائل کو جمع کردیا گیا ہے، جن سے حدیث مذکور کے خلاف قرآن ہونے کا دعویٰ باطل ہوجاتاہے۔ وہ فرماتے ہیں : باب قول النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم یعذب المیت ببعض بکاء أهله علیه إذا کان النوح من سنته، لقول اللّٰہ تعالى، قوا أنفسکم وأهلیکم ناراً، وقال النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم : کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیته فإذا لم یکن من سنته فهو کما قالت عائشة ﴿ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾ وهو کقوله ﴿ وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ ﴾ وما یرخص من البکاء من غیر نوح، و قال النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم لا تقتل نفس ظلما إلا کان على ابن ادم الأول کفل من دمها، وذلك لأنه أول من سن القتل. [2] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میت پر اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے اسے عذاب ہوتا ہے، یہ تب ہے جبکہ رو نا اور ماتم کرنا اس کے اہل کی رسم ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ یعنی ان کو برے کاموں سے منع کرو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور اس سے ا س کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اگر رونا پیٹنا اس کے خاندان کی عادت نہ ہو اور اچانک اس پر کوئی روئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس آیت سے دلیل لینا صحیح ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اسی طرح فرمایا : اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کو اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے بلائے گی تو وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور نوحہ کیے بغیر اور چلائے پیٹے بغیر رونا درست ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی ناحق خون ہوتا ہے تو آدم کے پہلے بیٹے قابیل پر بھی اس کا وبال پڑتا ہے، کیونکہ ناحق قتل کرنے کی بنیاد سب سے پہلے اسی نے رکھی ہے۔‘‘ ۵۔ بعض علما نے حدیثِ عمر کو حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جمع کرنے کی صورت یہ اختیار کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ کی حدیث سے وہی مفہوم مراد لیا ہے جو انہیں معلوم حدیث کے موافق ہے۔ چونکہ انہیں وہی ارشاد اور حدیث معلوم تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودیہ عورت کے متعلق فرمائی تھی اس لئے ان کے ہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عمر وغیرہ کی حدیث سے مراد بھی کافر میت ہے جسے نوحہ کرنے |