Maktaba Wahhabi

57 - 126
ذریعے سے ایک حدیث کو قبول اور دوسری کو رد کردیا جائے گا۔[1] یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے اس اصول کی بنیاد پر یہاں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو راجح قرار دے کر قبول اور حضرت عمر کی حدیث کو مرجوح قرار دے کر چھوڑدیا ہے۔ لیکن ان کے اس طرز عمل سے دلائل میں عجیب قسم کا تعارض پیدا ہوجاتا ہے کہ ایک شخص پریشان ہو کر حدیث کریمہ کے وحی ہونے کے مسلمہ عقیدہ رکھنے کے باوجود محض اپنے ذوق کی بنا پر بعض احادیث کو مرجوح یا منسوخ قرار دیتے ہوئے انہیں چھوڑ دینے کی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ حالانکہ حضرت عمر کی حدیث کو بیان کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرح عادل وضابط ہیں اور وہ تعداد میں بھی زیادہ ہیں۔ جیسا کہ اِمام ترمذی رحمہ اللہ (متوفیٰ 279ھ)نے اس حدیث کے تحت کہا ہے: ’’وفي الباب عن عمرو على وأبي موسى وقیس بن عاصم وأبي هریرة وجنادة بن مالك وأنس وأم عطیة وسمرة وأبي مالك الأشعری. ‘‘[2] ’’ان کے علاوہ عبداللہ بن عمر، مغیرہ بن شعبہ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔‘‘ بعض فقہاء کے بالمقابل جمہور اہل علم کے ہاں مختلف احادیث میں تعارض کو رفع کرنے کے لیے اولین کوشش جمع وتطبیق ہی کی، کی جانی چاہیے۔ کیونکہ دو متضاد ادلہ کو جمع کرکے یک جا کرنااس سے کہیں بہتر ہے کہ بعض احادیث کو چھوڑ دیا جائے اور بعض پر عمل کرلیا جائے۔ لہٰذا ہم ذیل میں باہم متضاد روایات اور قرآن وسنت کے ظاہر تعارض کو جمہور فقہاء کے جمع وتطبیق کے راجح قول کے مطابق پیش کردیتے ہیں، جس سے یہ ظاہری تعارض رفع ہوجائے گا۔ یہاں ہم تطبیق کی پانچ مختلف صورتیں بیان کر رہے ہیں: ۱۔ تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ میت اپنی عہد ِحیات میں دیگر افراد کی اموات پر آہ وبکا اور نالہ وشیون کا کام کرتی رہی اور اس کے اس طرز عمل سے اس کے گھر والے متاثر ہوئے۔ اب خود اس کے مرنے کے بعد وہ لوگ وہی کام کررہے ہیں جو یہ اپنی زندگی میں کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ((وَمَنْ سَنَّ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا، لَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا)) [3] ’’اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا کہ جس پر عمل کیا گیا تو اس شخص پر بھی اس برائی کا بوجھ ہو گا کہ جس نے اسے جاری کیا اور اس پر بھی کہ جس نے اس پر عمل کیا اور عمل کرنے والوں کے بوجھ میں سے کچھ کم نہ ہو گا۔‘‘
Flag Counter