موتى))سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ قرآن کریم کی آیت ﴿ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَآءُ وَ مَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ﴾[1] یعنی ’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ تو قبروں میں جانے والوں کو نہیں سنا سکتے لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے آپ کی بات سنا سکتا ہے‘‘ سے بھی اسے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے جس چیز کی نفی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے خود حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا اثبات ہورہا ہے۔ مثال نمبر2: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہ روایت جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے پیش کی گئی کہ ((إن المیت لیعذب ببکاء أهله علیه)) تو فرمایا: يَرْحَمُ اللّٰه عُمَرَ، لَا وَاللّٰه مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم إِنَّ اللّٰه يُعَذِّبُ الْمُؤْمِنَ بِبُكَاءِ أَحَدٍ، وَلَكِنْ قَالَ: ((إِنَّ اللّٰه يَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ))قَالَ: وَقَالَتْ عَائِشَةُ: حَسْبُكُمُ الْقُرْآنُ: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ [2] ’’ اللہ تعالیٰ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے، بخدا رسول اللہ نے یہ نہیں فرمایا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ مومن کو کسی کے رونے کی وجہ سے عذاب دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات مومن کے بجائے کافر کے بارے میں فرمائی ہوگی۔ پھر فرمایا: ’’تمہیں قرآن کافی ہے۔قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾ کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔‘‘ اعتراض حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اِستدراک سے قرآن وسنت میں بظاہر جو تعارض نظر آتا ہے اس سے بعض علماء نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ حدیث میں میت کو اس کے اہل وعیال کی نوحہ خوانی سے مبتلائے عذاب ہونے کی وعید سنائی گئی ہے، آخر میت کو اس کے اہل وعیال کے عمل کی وجہ سے عذاب کیوں کر ہوسکتا ہے۔ حالانکہ از روئے آیت قرآنی ﴿ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾[3] کی روشنی میں اس کی نفی ہوتی ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ میت کو نوحہ گری اور گریہ زاری سے عذاب نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن وسنت کا یہی وہ تعارض ہے جس کی طرف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نشاندہی فرمائی اور اس جانب اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو متوجہ کیا ہے۔ جواب بعض کا کہنا ہے کہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ دو مختلف احادیث میں ٹکراؤ کی صورت میں نسخ یا ترجیح کے |