کی بجائے دونوں روایتوں پر عمل کیا جاسکے۔ مسئلہ سماع موتی جہاں تک ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا سماع موتی کے باب میں آیت قرآنی ﴿ اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى﴾[1] کو پیش کرنے کا تعلق ہے تو یہ بھی انکار حدیث کی غرض سے نہیں ہے، بلکہ اس حدیث کی وجہ سے یہ آیت پیش کی ہے جس کا انہیں علم تھا اور وہ ((لقد علموا))کے الفاظ پرمشتمل تھی۔ورنہ یہی آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی پیش کی گئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے فرمان کے خلاف نہیں سمجھا تھا، جیساکہ مسند احمد میں ہے: أَنَّ رَسُولَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : تَرَكَ قَتْلَى بَدْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ حَتَّى جَيَّفُوا، ثُمَّ أَتَاهُمْ فَقَامَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: يَا أُمَيَّةُ بْنَ خَلَفٍ، يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ، يَا عُتْبَةُ بْنَ رَبِيعَةَ، يَا شَيْبَةُ بْنَ رَبِيعَةَ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمْ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا ، قَالَ: فَسَمِعَ عُمَرُ صَوْتَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰه، أَتُنَادِيهِمْ بَعْدَ ثَلَاثٍ، وَهَلْ يَسْمَعُونَ؟ يَقُولُ اللّٰه عَزَّ وَجَلَّ: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ مِنْهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يُجِيبُوا [2] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مرداروں کو تین دن تک چھوڑے رکھا، اس کے بعد ان کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا: اے امیہ، اے ابوجہل، اے عتبہ اور شیبہ ، ربیعہ کے بیٹو! تم سے تمہارے رب نے جو وعدے کئے تھے وہ سچ نکلے یا نہیں؟ مجھ سے تو میرے رب نے جو کچھ فرمایا برحق ثابت ہوا، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ تین دن کے بعد انہیں آواز دے کربلا رہے ہیں!! کیا یہ سنتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى ﴾یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو نہیں سنا سکتے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات باری تعالیٰ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ تمہاری طرح سن رہے ہیں لیکن یہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ قابل غور بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کے پیش ہونے پر اپنی حدیث سے رجوع نہیں فرمایاکیونکہ یہ آیت حدیث مذکورکے خلاف نہیں ہے، لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت کی بنا پر حدیث نبوی کاانکار کیونکر کرسکتی ہیں؟ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلیب بدر پر کھڑے ہو کر مقتول کافروں کے ساتھ خطاب کرنے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ان تک پہنچا رہے تھے اور وہ منکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کو سن کر ذہنی اذیت اٹھا رہے تھے اور اپنے انکار پر نادم ہورہے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال ((أتکلم قوما |