Maktaba Wahhabi

54 - 126
ان دونوں میں آٹھ چیزوں میں یگانگت پائی جائے۔ جنہیں شاعر نے یوں اپنے ایک شعر میں جمع کردیاہے: درتناقض ہشت وحدت شرط دان وحدت موضوع ومحمول ومکان وحدت شرط و اضافت جزء و کل قوت و فعل ست در آخر زمان جبکہ دونوں احادیث میں کوئی تعارض ہی نہیں تو ایک کودوسری سے ٹکرا کر چھوڑنے کا سوا ل پیدا نہیں ہوتا، بلکہ دونوں احادیث اپنے اپنے مقام پر صحیح اور ثابت ہیں۔ بعض حضرات تو اس لفظی اختلاف کو انکار حدیث کے لئے ایک بہانے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس طرح ایک حدیث کو رد کرنے کا جواز نکالتے ہیں حالانکہ لفظوں کا یہ اختلاف کلام نبوت کے اعجاز کی دلیل ہے جس سے اہل بصیرت کو یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ احادیث فی الواقعہ زبان نبوت سے ہی صادر ہوسکتی ہیں، جن میں مقتضائے حال کی مطابقت کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سے خطاب کے وقت موقع پر موجود تھے ان کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سننے کا لفظ استعمال کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نہ مخاطب تھے اور نہ وہ سن رہے تھے وہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس علم کا لفظ ذکر کیا ہے۔ قلیب بدر کے بارے میں حدیث عمر پر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے منہج اِستدراک اور ان کے مابین اختلافِ تنوع کی تطبیق وتوفیق آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں۔ اِستدراک عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہ توصحیح سند کے ساتھ ثابت ہونے والی روایت کا انکا ر لازم آتا ہے اور نہ ہی اس کے خلافِ قرآن ہونے کی دلیل ہاتھ آتی ہے۔ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث کی ایسی توجیہہ بیان فرمائی ہے کہ جس سے بظاہر نظر آنے والا تعارض ختم ہوکر رہ جاتا ہے اگر ان کا مقصد حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مرادِ قرآن کے خلاف ثابت کرنا ہوتا تو ہمارے خیال میں جو اعتراض سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا قرآنی آیت کی روشنی میں حدیث ِعمر پر کررہی ہیں بالکل وہی اعتراض ان کی توجیہہ پربھی صادق آتا، کیونکہ دونوں روایتوں کا باہمی اختلاف((لم یسمعوا)) اور ((لم یعلموا ))کے الفاظ میں ہے ۔حدیث مبارکہ میں((لم یسمعوا))کے الفاظ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے، جبکہ ((لم یعلموا))کے الفاظ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نقل فرمائے ہیں،لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ان الفاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب پر خود انہی کی طرف سے کیے جانے والے اعتراض کا تسلی بخش جواب فراہم نہیں ہوتا ہے، کیونکہ اصل سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مردوں کے خطاب پر تھا، نہ کہ قلیب بدر کی موجودہ حالت پر۔ مزید برآں اس کی توجیہہ ((لم یسمعوا ))سے کریں یا ((لم یعلموا ))سے، سوال اپنی جگہ بہرحال برقرار رہتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اگر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قرآن کے حدیث سے تعارض کی نشاندہی کرنا چاہتی تھیں تو وہ تعارض خود ان کے بیان کردہ الفاظ میں پایا جاتا ہے۔ کیا اس قدر باریک بین نگاہ رکھنے والی ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی روایت کے الفاظ کا خلاف قرآن ہونا سمجھ نہ آیا۔ نیز حقیقت بھی یہی ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مقصد کسی بھی قسم کی اس غلط فہمی کو دفع کرنا تھاکہ حدیث اور قرآن میں تعارض بھی ہوسکتا ہے،بلکہ جمع وتطبیق کے ذریعے سے اس کی کئی پہلوؤں سے قابل قبول توجیہہ کی جاسکتی ہے ۔جس کی بنیاد پر کسی ایک دلیل کو مرجوح یا منسوخ قرار دے کر ترک کرنے
Flag Counter