Maktaba Wahhabi

46 - 126
اِستدراکاتِ صحابہ علی الصحابہ کے ضمن میں جن دو کتب کو سر فہرست ذکر کیا جاتا ہے وہ اِمام سیوطی رحمہ اللہ (متوفیٰ911 ھ) کی ’’عین الإصابة في ما استدرکته عائشة على الصحابة‘‘ اور اِمام زرکشی رحمہ اللہ (متوفیٰ 794ھ)کی ’’الاجابة لإیراد ما استدرکته عائشة على الصحابة‘‘ ہیں، لیکن ان دونوں کتب کے مصنفین نے اپنی تصنیفات کے مقدموں ہی میں واضح کردیا کہ ان کتب کا موضوع تحمل واقعہ میں شاہدین کے فہم کا اختلاف ہے، ورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قبول روایت میں دیگر صحابہ کی منقولات کو بلا کسی تردد کے قبول کرتے تھے۔ اِمام شافعی رحمہ اللہ (متوفیٰ 204ھ)نے بھی ’الرسالہ‘ میں اس بات پرکافی زور دیا ہے کہ صحابہ کو سنت کی روایت میں عین اسی طرح خیال کرنا چاہیے جس طرح کہ کسی واقعہ کے تحمل اور پھر اس کی روایت میں شاہدین کو خیال کیا جاتا ہے۔ [1] بسا اوقات اِستدراکات کی نوعیت ’درایت حدیثی‘ کے بجائے یوں ہوتی ہے کہ اِستدراک کرنے والا صحابی روایت کو معلومات دین کے صریحاً مخالف پانے کی بنا پر ماننے سے انکار کردیتا ہے کہ راوی حدیث اپنے حافظہ کے اعتبار سے کسی نسیان کا شکار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ صحابہ باہم ایک دوسرے کی عدالت پر تو اتفاق کرتے تھے، لیکن نسیان کی غلطی کی بحث بہرحال ان میں موجود تھی کیونکہ صحابیت کے شرف سے بشری قویٰ کی کمزوریوں کا اِزالہ نہیں ہو جایا کرتا۔ انہی امثلہ کی روشنی میں بعد ازاں محدثین کرام نے اصول مقرر فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب عادل ہیں، لیکن محدثین کرام میں سے کوئی بھی اس بات کا دعویدار نہیں کہ صحابہ کی عدالت کا لازمہ یہ ہو کہ ان کی ضبط سے متعلق غلطیوں کو بھی قبول کرلیا جائے۔ ذخیرہ حدیث میں موجود مثالوں میں سے عام طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمومی اِستدراکات علی الصحابہ اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ حدیث رسول میں اِستدراکات کاآغاز اگرچہ عہد صحابہ ہی سے ہو گیا تھا، لیکن ان کے منہج اِستدراک یا تنقیدی طرز عمل سے یہ بات قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ حدیث کو محض عقل یا قرآن کے خلاف ہونے کی بنا پر رد کردیا ہو اور اس کے صحیح ہونے کی کوئی پروا نہ کی ہو کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عام رویہ ، فطری رجحان اور ایمان یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کے ثبوت کے یقینی ہوجانے کے بعد کوئی حدیث قرآن حکیم یا عقل عام کے خلاف ہر گز نہیں ہوسکتی ہے۔ ہاں! ایک بات ضرور تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ ناقلینِ سنت صحابہ بھی آخر انسان تھے اور تحمل واقعہ کے وقت فہم واقعہ کے سلسلہ میں کسی غلط فہمی کا شکار ہو سکتے تھے، لہٰذا واقعہ کے کسی خاص پہلو کی طرف اگر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے ساتھیوں کی توجہ مبذول کروا دی جو کہ دیگر حضرات کی نظروں سے اوجھل رہ گیا تھا تو اس میں اچنبھے والی کوئی بات نہیں ہے، اور وہ ہستیاں تو اپنے اس طرز عمل کی بنیاد پر خراج تحسین کی مستحق قرار پاتی ہیں جنہوں نے عہد رسالت میں ظہور پذیر ہونے والے کسی بھی واقعہ کی مکمل عکسی تصویر ہمارے سامنے اس انداز اور اس اسلوب میں پیش فرمادی کہ اب صدیاں
Flag Counter