ہوجاتاہے۔ انہی جدید اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ’درایت‘بھی ہے کہ جس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ متن ِحدیث کی تحقیق میں قرآن کریم اور عقل عام کو معیار بنایا جائے اور جو متن اس کسوٹی پر پورا نہ اترتا ہو اس کو بلا چون و چرا رد کردیا جائے اور اس بات کی کوئی پروا نہ کی جائے کہ ثبوت کے اعتبار سے یہ متن کس اَعلیٰ درجہ کے رواۃ اور بلند پائے کے ثقات نے نقل کیا ہے۔ حتی کہ انتہا یہ ہے کہ اس تصور کو بعض امثال ِصحابہ سے سند جواز فراہم کی جاتی ہے، جنہیں کتب حدیث میں ’اِستدراکات ِصحابہ‘ کا عنوان دیا گیا ہے، حالانکہ اِستدراکات ِصحابہ کی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ حضرات صحابہ کا باہمی اختلاف متن برائے متن کی تحقیق کے قبیل سے کبھی نہیں ہوتا تھا، بلکہ جب بھی ان میں کسی روایت کے قبول کے حوالے سے اختلاف ہوا تو اس کا تعلق تحمل ِحدیث میں راوی کے فہم ِواقعہ سے تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس اِستدراک کو ہم ’درایت حدیثی‘ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ’اہل درایت‘ نے بھی اس بات کو محدثین کرا م کے حوالے سے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے نقد حدیث میں تحمل واقعہ کے ضمن میں فہم راوی کی غلطیوں کی تحقیق بھی فرمائی ہے، جیساکہ علامہ تقی امینی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ’’ علم درایت حدیث کے اصلاً دو جزء ہیں: فہم حدیث اور نقد حدیث۔‘‘ [1] واضح رہے کہ محدثین کرام نقدروایت کے ساتھ ساتھ تحمل واقعہ کے ضمن میں راوی کے فہم کی خطا کی بھی تحقیق کرتے ہیں اور یہی ’اِستدراکات ِ صحابہ‘ کا موضوع ہے۔ اِستدراکات ِصحابہ کی نوعیت اِستدراکات صحابہ کے بارے میں ہمارا خیال یہ ہے کہ جس طرح کسی واقعہ کے نقل میں الفاظ کی صورت میں تعبیر چونکہ شاہدین واقعہ کی اپنی ہوتی ہے، لہٰذا مخبرین کی اخبار، واقعہ کے مختلف پہلوؤں کے بیان کے اعتبار سے بسا اوقات مختلف بھی ہوجاتی ہیں، لیکن جیساکہ یہ بات واضح ہے کہ یہ اختلاف تضاد کے بجائے واقعہ کے متنوع پہلوؤں کا بیان ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب سنت کے مخبرین کی روایات کواکٹھا کیا جاتا ہے تو پہلے مکمل کوشش کرکے ان کی متعدد مختلف النوع جہات کو باہم مربوط کرتے ہیں اور جب واقعہ کی تصویر مکمل ہوجاتی ہے تو اس اختلاف کی ضمن میں اس پر غور کیا جاتا ہے کہ روایت میں مخبرین نے واقعہ کی تعبیر میں تحمل ِواقعہ کے بارے میں اپنے فہم کے مطابق جن الفاظ کا چناؤ اپنے ذوق سے کیا ہے، کیا وہ واقعہ کی مکمل اور حقیقی تصویر کے مطابق ہیں یا نہیں؟ عام طور پر متجددین لوگ شاہدین واقعہ کے اس قسم کے اختلاف کو بھی تضاد باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنے مقاصد کو پورا کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ جن اہل علم نے صحابہ کے مابین اس قسم کے استدراکات کو تصنیف وتالیف کا موضوع بنایا ہے، انہیں اس قسم کی امثلہ سے کبھی بھی تشویش نہیں ہوئی۔ |