ہے جو اظہر من الشمس ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے بینک کے پراجیکٹ کے شروع ہونے پر دس لاکھ بینک میں جمع کروائے اور دس دن بعد ہی نکال لیے جبکہ بینک کو ان دس دنوں میں کوئی نفع حاصل نہ ہوا تھا ‘ اب بینک کو مہینے کے اگلے بیس دنوں میں جو نفع حاصل ہوا تو اس نے اس نفع کی فی یوم فی روپیہ اوسط نکال لی اور اپنے اس کھاتے دار کوبھی اس نفع میں کچھ حصہ دے دیا جو کہ درحقیقت اس کا حصہ نہیں بنتا ہے۔ علمائے احناف کے متفقہ فتوی میں ہے: ’’شرکت و مضاربت میں منافع کی تقسیم کا مجوزہ طریقہ کار‘ اسلامی تقاضے پورے نہیں کرتا بلکہ منافع کی حقیقی شرح کے بجائے روزانہ پیداوار کی بنیاد پر یا ’وزن‘ دینے کے نام سے فرضی اورتخمینی شرح طے یا ادا کی جاتی ہے جوکہ شرکت و مضاربت کے اساسی اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔‘‘ [1] حاصل بحث اسلامی بینکوں کامروجہ نظام غیر شرعی حیلوں پر مشتمل ہے کہ جس میں بظاہرجزء اً جزء اً فقہی ضابطوں کی پابندی ہو رہی ہے لیکن ان ضابطوں کے جاری کرنے میں جو شرعی مقاصد تھے وہ بری طرح پامال ہو رہے ہیں۔لہٰذا مروّجہ اسلامی بینکنگ ایسے حیلوں پر مشتمل ہے جو کہ شرعی مقاصد کے حصول میں رکاوٹ ہیں ۔ غیر سودی بینک ہوں یا سودی بینک ہوں، دونوں طرح کے بینک حقیقت میں تجارت و کاروبار (Trade)نہیں کرتے بلکہ پیسوں کا لین دین کرتے ہیں۔ غیر سودی بینکوں کی جن جائز خدمات سے ضرورت کے نظریے کے تحت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، وہی خدمات اسلامی بینکوں سے لینا بھی جائزہے ۔ لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ ایسے اجتماعی اداروں کی تخلیق اسلامی معاشرے کی ضرورت ہیں کہ جن میں حقیقی بنیادوں پر شرعی اصولوں کی روشنی میں تجارت، مضاربت و مشارکت وغیرہ رائج ہو۔عام طور پرعوام الناس کی طرف سے یہ بات سننے میں آتی ہے کہ علماء ہر بات پر اعتراضات تو کر دیتے ہیں لیکن کوئی حل پیش نہیں کرتے۔حقیقت یہ ہے کہ حل تو موجود ہے لیکن سرمایہ دار طبقے کے مادہ پرستانہ نظریات و اخلاقیات اور عامۃ الناس کی ضرورت کے نام تعیشات پر مبنی زندگی کی خواہش نے ایک ایسی ذہنیت کو جنم دے دیا ہے کہ وہ اس حل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ایک سیدھا سا اصول یہ ہے کہ مضاربت یا مشارکت میں نقصان بھی ہو سکتاہے اگرچہ مختلف جدیدعلوم و مینجمنٹ سائنسز کی روشنی میں متوقع نقصان کے خطرے کو کم تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ختم کبھی بھی نہیں ہو سکتا ۔لیکن آج کون سے ایسے انویسٹرز(investores) ہیں جو اس نقصان کو برداشت کرنے کے خطرے کو قبول کرتے ہوئے انویسٹ (invest)کرنے پر تیار ہوں ۔بہر حال یہ ایک سادہ سی مثال اس لیے دی گئی ہے کہ کاروبار یا تجارت ‘ ایک کاروبار یا تجارت ہی ہے جس کے اپنے کچھ لوازمات و مقتضیات ہیں مثلاً نقصان کا اندیشہ وغیرہ ۔اگر ہم ان لوازمات کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر وہ کاروبار نہیں رہے گا بلکہ کچھ اور ہی |