Maktaba Wahhabi

41 - 126
میں رقم لینا، اسی طرح مختلف فیسیں لینا یا کسی قسم کا معاوضہ اور الاؤنس، مال مضاربت سے منہا کرنا ناجائز ہے۔مگر اسلامی بینک ایسا کرتے ہیں۔ ‘‘[1] تیسری بات یہ ہے کہ اسلامی بینک مضاربت میں اصل اہمیت ویٹج یعنی وزن کو دیتے ہیں۔مولانا مفتی حافظ ذوالفقار حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اسلامی بینکوں میں نفع کی تقسیم کے لیے رقم کی کمی بیشی کی بنیادپر ڈیپازیٹر کی رقوم کاالگ الگ وزن مقرر کیا جاتا ہے جس کی رقم زیادہ ہو اس کا وزن زیادہ رکھا جاتا ہے اور جس کی رقم تھوڑی ہو اس کا کم ۔مثلاً میزان بینک کی ویب سائیٹ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ماہ اپریل 2008ء کا ویٹج اسائنڈ weightage assignedیوں ہے: اگر رقم 10000(دس ہزار) سے لے کر ایک لاکھ سے کم تک ہو تو ویٹج اسائنڈ 0.31 ہو گا اور اگر رقم ایک لاکھ سے لیکر 0.99ملین(دس لاکھ سے کم) تک ہوتو ویٹج اسائنڈ0.36 تک ہو گا۔گویا اسلامی بینکوں میں کم رقم رکھوانا جرم ہے جس کی سزا یہ ہے کہ اس کی رقم کا وزن بھی کم رکھا جائے ۔ویٹج اسائنڈ کو رقم کی کمی بیشی کے ساتھ مربوط کرنا عدل کے خلاف ہے ۔1987ء میں خود اسٹیٹ بینک اس کو غلط کہہ چکا ہے۔یہاں ایک اور ناانصافی یہ بھی کی جاتی ہے وہ یہ کہ مضاربہ میں بینک کی اپنی رقم بھی ہوتی ہے۔بینک اس رقم کا ویٹج اسائنڈ ڈیپازیٹر سے مختلف رکھتا ہے۔مثلاً اسی ماہ اپریل میزان بینک نے اپنی رقم کا ویٹج اسائنڈ 1.7رکھا ہے ۔یہ فرق خود اس اصول کے بھی خلاف ہے وہ اس طرح کہ اگر بینک نے مثلاً مضاربہ میں ایک ارب روپیہ لگایا ہے اور اس میں نوے کروڑ کھاتہ دار کا اور دس کروڑ بینک کا‘ تو اس اصول کے مطابق کھاتہ داروں کی ویٹج اسائنڈ بینک کی رقم سے زیادہ ہو جانا چاہیے کیونکہ مجموعی اعتبار سے کھاتہ داروں کی رقم زیادہ ہے لیکن بینک نے الٹا اپنی رقم کا ویٹج اسائنڈ زیادہ رکھا ہوتا ہے۔ ‘‘[2] چوتھی بات یہ ہے کہ اسلامی بینکوں میں شراکت کے لیے ایک رواں کھاتہ کھول دیا جاتا ہے کہ جس میں مختلف افراد، مختلف اوقات، میں مختلف رقمیں نکلواتے بھی ہیں اورساتھ ہی فاضل سرمایہ بھی جمع کرواتے رہتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی بینک نے ایک سال کے لیے ایک پراجیکٹ پر کام شروع کیا ہے تو اس کا ایک رواں کھاتہ کھول دیا جائے گاجس میں لوگ اس ایک سال کے دوران اپنا سرمایہ جمع کرواتے رہیں گے اور نکلواتے بھی رہیں گے۔ اب ایک سال بعد جتنا نفع ہو گا تو بینک اس نفع کو یوں تقسیم کرتا ہے کہ وہ سب سے پہلے یہ معلوم کرتا ہے اوسطاً فی یوم کتنا سرمایہ استعمال ہوا ہے ۔اس سے وہ ایک دن میں ایک روپیہ پر حاصل ہونے والا نفع معلوم کرتا ہے اور پھر ایک شخص نے جتنے دن کے لیے اس کھاتے میں اپنی رقم رکھی تھی ‘ اس نفع کو ان دنوں سے ضرب دے دی جاتی ہے۔اس طرح یومیہ بنیادوں پر نفع کی تعیین کی جاتی ہے۔نفع کی تعیین کا یہ طریقہ ظن و تخمین پر مبنی
Flag Counter