مختلف مراحل شرعی اعتبار سے وکالت ہر گز نہیں بن سکتے بلکہ لین دین کی ذمہ داری ایک شخص کے گرد گھومنے کی وجہ سے صراحتاً وکالت فاسدہ ہے ۔اس لیے و کالت کا یہ طریقہ کار شرعاً محض کاغذوں کی لکیریں اور لفظی ہیر پھیر ہے۔ حقیقت میں ایک ہی فرد بائع اور مشتری بن رہا ہے جو کہ صراحتاًخلاف شرع ہے ۔پس مرابحہ بنوکیہ خالصتاً سودی حیلہ ہے ۔اس مرابحہ کا شرعی اصطلاحی مرابحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ [1] دسواں اعتراض:ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ بینک جب کسی گاہک کو بیع مرابحہ میں اپنا وکیل بناتا ہے تو اس کے ساتھ اس چیز کی خریداری کا ایک پیشگی معاہدہ بھی کرتا ہے ۔اس معاہدے کی رو سے جب کوئی شخص بطور وکیل بینک کی طرف سے متعلقہ چیز خرید لیتا ہے تو فوراً ہی وہ شخص متعلقہ چیز کو اپنے قبضے اور ضمان میں منتقل کرنے کا پابند ہوتا ہے جو کہ ناجائزہے۔علمائے احناف کے متفقہ فتوی میں ہے: ’’مرابحہ بنوکیہ میں آڈر فارم کے ضمیمہ کی رو سے پیشگی معاہدہ کے تحت گاہک مال کو فورا ً اپنے قبضے اور ضمان میں منتقل کرنے کا پابند ہے ، ورنہ نقصان گاہک پر لازم ہو گا۔یہ ناجائزہے۔‘‘ [2] مضاربہ ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ بینک کے دو بنیادی کام ہیں ۔ایک لوگوں سے ان کی رقوم بطورامانت یا قرض وصول کرنا اور دوسرا ان رقوم کو آگے سودی قرضوں پر جاری کرنا۔ اسلامی بینک اپنے کھاتے داروں (depositers) سے مضاربت و مشارکت کی بنیاد پر رقوم وصول کرتے ہیں اور پھر ان کوکاروبار میں لگاتے ہیں۔ اور اسلامی بینکوں کے کاروبار کا بڑا حصہ مشارکہ متناقصہ‘ اجارہ و اقتناع اور بیع مرابحہ پر مشتمل ہے جن کی شرعی حیثیت کے بارے میں ہم بالتفصیل گفتگو کر چکے ہیں ۔ہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ اسلامی بینکوں کا یہ کاروبار غیر شرعی حیلوں پر مشتمل ہے لہٰذا اس سے حاصل شدہ منافع بھی درست نہیں ہے یا کم ازکم مشتبہ امور میں ہے کہ جن سے بچنے کو عین تقویٰ قرار دیا گیا ہے۔پس اسلامی بینک میں کسی قسم کاکوئی اکاؤنٹ کھلوا کر منافع حاصل کرنا درست نہیں ہے۔ دوسری ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بینک اپنے کھاتے داروں سے جو مضاربت کرتے ہیں اس میں وہ اپنے طے شدہ نفع کی شرح کے علاوہ بھی اپنے ذاتی اخراجات ‘مختلف قسم کی فیسیں اور الاؤنسز وغیرہ بھی نکالتے ہیں جو ناجائز ہیں۔علمائے احنا ف کے متفقہ فتوی میں ہے: ’’مضاربہ میں کھاتہ دار رب المال اور بینک مضارب ہوتاہے، مال مضاربت میں بینک کا حصہ شرعاًصر ف اور صرف حاصل شدہ نفع کی طے شدہ شرح ہے، اس کے علاوہ بینک کے لیے شرعاً اپنے ذاتی انتظامی اخراجات کی مد |