گیارہ سو وصول کر رہاہے۔اسلامی بینک یہ کہے گا کہ اس نے بذریعہ بیع گیارہ سو وصول کیے ہیں ۔ہم یہ کہیں گے کہ بینک نے اس معاملے کوحیلے سے بیع بنایا ہے۔ درحقیقت یہ بیع نہیں ہے کیونکہ بینک تو صر ف کاغذی کاروائی کرتے ہوئے ایک ہزار مہیا کر دیتا ہے اور اس ایک ہزار کے بدلے گیارہ سو وصول کر لیتا ہے جبکہ بازار سے اس چیز کی خریداری اور اس کے لیے بھاگ دوڑ وہی شخص کرتا ہے۔اور جو چیزا س بات کومزید مؤکد کرتی ہے وہ یہ ہے کہ بینک نے اس چیز کا منافع مارکیٹ کے مطابق وصول نہیں کیا بلکہ اس چیز کی اصل قیمت پر( + 4)کا اضافہ کر کے اس کو اپنے کسٹمر سے وصول کر لیا ہے۔ ساتواں اعتراض:اگر اس کو بیع مان بھی لیا جائے تو یہ’ کرنسی کی بیع مرابحہ‘ ہے اور’ کرنسی کی بیع مرابحہ‘ فقہاء کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے،یعنی بینک سے ایک ہزار لے لو اور پھر اپنی من پسند کوئی چیز خرید لواور پھر اس ایک ہزار کے بدلے بینک کو گیارہ سو واپس کر دو۔لہٰذا ایک ہزار کی بیع گیارہ سوکے بدلے میں ہے جو حرام ہے۔ آٹھواں اعتراض یہ ہے کہ اگر کوئی گاہک’بیع مرابحہ‘ میں بینک کو مقررہ وقت پر قیمت ادا نہ کرے تو بینک اس پر جرمانہ وصول کرتا ہے جو ناجائز ہے ۔مولانا مفتی حافظ ذوالفقار صاحب لکھتے ہیں: ’’قرآن و حدیث میں تاخیر پر جرمانہ کا تصور موجود نہیں اور نہ ہی فقہاء اس کی اجازت دیتے ہیں۔امام مالک فرماتے ہیں: ’قتل سمیت کوئی گناہ انسان کے مال کو حلال نہیں کرتا‘۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’سزا صرف جسمانی ہے نہ کہ مالی۔فقہ حنبلی کی معروف کتاب ’المغنی‘ میں ہے:’تعزیر مارنے‘ قید کرنے اور ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے ہوتی ہے اس کا کوئی حصہ کاٹنا، یا اسے زخمی کرنا، یا اس کا مال لینا جائز نہیں کیونکہ جن لوگوں کی اقتداء کی جاتی ہے ان کے حوالے سے شریعت میں اس طرح کی کوئی چیز بیان نہیں ہوئی‘۔فقہائے حنفیہ کے نزدیک مالی جرمانہ جائز نہیں۔چناچہ علامہ ابن نجیم حنفی (متوفیٰ 970ھ) لکھتے ہیں: خلاصہ کلام یہ ہے کہ حنفی مذہب کے مطابق مال لے کر تعزیری سزا جائز نہیں ۔فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ’در مختار‘ کے حوالے سے لکھا ہے:’حنفی مذہب کے مطابق مالی جرمانہ درست نہیں۔‘‘ [1] نواں اعتراض:بینک کے پاس جب کوئی شخص بیع مرابحہ کے لیے آتا ہے تو بینک اس شخص کی مطلوبہ چیز خریدنے کے لیے اس کو اپنا وکیل بنا لیتا ہے اور اسی گاہک کے ذریعے وہ چیز خریدتا ہے اور اس نے مستقبل میں اپنے اسی گاہک کو وہ چیز فروخت بھی کرنی ہے ۔علاوہ ازیں بینک اس چیز کی خریداری سے پہلے یا گاہک کو وکیل بنانے سے پہلے اپنے اس گاہک وکیل سے یہ معاہدہ بھی کرتا ہے کہ وہ جب بینک کے وکیل کی حیثیت سے فلاں چیز کسی دوسری پارٹی سے خرید لے گا تو اب وہ وکیل گاہک،بینک کے مالک بن جانے کے بعد اس چیز کو بینک سے خریدنے کا پابند ہو گا۔بینک کی یہ وکالت ، وکالتِ فاسدہ ہے ۔علمائے احناف کے متفقہ فتوی میں ہے: ’’مرابحہ بنوکیہ میں بینک کا کاغذی معاہدہ جس پر پیشگی دستخظ ہو چکے ہیں ‘ وہی اصل ہے اس کے بعد وکالت کے |