Maktaba Wahhabi

38 - 126
’’سودی بینکوں کی طرح اسلامی بینک بھی (Non Risk) ہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب کوئی اسلامی بینک کے ساتھ مرابحہ یا اجارہ کامعاملہ کرنے جاتا ہے تو بینک اس سے اچھی خاصی رقم جو عام طور پرمطلوبہ چیز کی قیمت کا دس فی صد ہوتی ہے ‘ ٹوکن منی(حامش جدیہ) کے نام سے وصول کرتا ہے تاکہ اگر بعد میں وہ چیز لینے سے انکار کر دے اور بینک کو وہ چیز دوسری جگہ قیمتِ لاگت سے کم پر فروخت کرنی پڑے تو بینک اس ٹوکن منی سے اپنا نقصان پورا کر سکے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا اسلامی بینکوں کے نزدیک یہ خطرہ مول لینا رسک میں شامل نہیں؟ ممکن ہے اسلامی بینکنگ کے محققین فرمائیں کہ ہمارے نزدیک اس قسم کے خطرے میں پڑنا رسک میں شامل نہیں ، اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دوسری جگہ بیچنے پر بینک کو فائدہ ہو، کیا وہ یہ نفع خریداری کا آڈر دینے والے شخص کو دینے کے لیے تیار ہے؟ظاہر ہے بینک اس پر تیار نہیں ہو گا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بینک نقصان اٹھانے کے لیے تیار نہیں تو نفع کس بنیاد پر لیتا ہے۔‘‘ [1] چوتھاا عتراض یہ ہے کہ بینک کے پاس جب ایک شخص آتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اسے فلاں چیز کی ضرورت ہے تو بینک اس شخص کو اپنا ایجنٹ یا وکیل بنا کر وہ چیز مثلاً پانچ سو میں خرید لیتا ہے اور پھر اسی شخص کو وہی چیزچھ سو میں قسطوں پر بیچ دیتا ہے ۔ اگربینک نے اپنے ایجنٹ یا وکیل کو کوئی چیز خریدنے کے لیے یکم مئی کو رقم فراہم کی لیکن وہ چیز بینک کو بیس مئی کو ملی اور اکیس مئی کو بینک نے وہی چیز اپنے ایجنٹ کو بیچ دی ۔اب بینک جب اپنے منافع کا حساب لگائے گا تو وہ اس منافع کا حساب(caculation)یکم مئی سے شروع کرتا ہے یعنی جس دن اس نے اپنے ایجنٹ کو وہ رقم دی تھی۔یعنی نہ مال بینک کے قبضے میں موجود ہے اور نہ ہی وہ مال آگے فروخت ہوا ہے لیکن اس کا منافع شمار(calculate) ہورہا ہے۔ پانچواں اعتراض یہ ہے کہ بینک سے ایک شخص جو بھی چیز خریدے مثلاً زمین، گاڑی، مشینری، سائیکل، زیورات، کپڑاوغیرہ تو بینک ان سب کا منافع ایک ہی جیسالے گایعنی اصل قیمت میں سودی بینکوں کے باہمی تبادلہ کی شرح سود پر چار یا پانچ فی صد اضافی شمار کر کے شامل کر لے گا۔یہ کیسی تجارت کہ جس میں ایک موٹرسائیکل، کار، کپڑا، زمین، زیورات یہاں تک کہ ہر چھوٹی بڑی چیز کا منافع ایک ہی جیسا ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ یہ حقیقی منافع نہیں ہے اگر یہ حقیقی منافع ہوتا تو بینک کے ذریعے مختلف اشیاء کی خریداری پر مختلف شرح کے ساتھ بینک منافع وصول کرتا جیسا کہ مارکیٹ میں مختلف اشیاء کا منافع بھی مختلف ہوتا ہے۔10 لاکھ کا سونابیچتے وقت ایک سنار کو جو نفع حاصل ہوتا ہے وہ 10 لاکھ کی گاڑی یا زمین بیچتے وقت اس کے مالک کو حاصل ہونے والے منافع کے کبھی بھی برابر نہیں ہوتا۔ چھٹا اعتراض یہ ہے کہ سود میں رقم کے عوض ر قم حاصل(charge) کی جاتی ہےیعنی کسی شخص نے ایک ہزار قرض دیا اور اس پر گیارہ سو واپس لے لیے۔اس بیع میں بینک بھی یہی کام کر رہا ہے کہ وہ ایک ہزار کی شیء پر
Flag Counter