تیسرا اعتراض یہ ہے کہ بینک کے پاس جب ایک شخص آتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اسے فلاں چیز کی ضرورت ہے مثلاً اسے ایک کنال زمین کی ضرورت ہے تو بینک اس زمین کی اصل قمیت میں(karachi internal banks offered rate + 4 or 5)کا اضافہ کرتا ہے ۔اور اس شخص سے یہ معاہدہ کر لیتا ہے کہ وہ بینک سے اسی قیمت پر وہ زمین خریدے گا۔یعنی بینک نے ایک چیز خریدی ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے قبضے میں ہے اور وہ اس کو ایک متعین منافع پر بیچنے کا معاہدہ کر رہا ہے۔ اسلامی بینک عام طور پر اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ ایک معاہدہ ہی تو ہے، ہم نے کوئی بیع تھوڑی کی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اسلامی بینک نے حیلہ کرتے ہوئے کاغذوں میں اسے ایک معاہدہ (contract)قرار دیا ہے حالانکہ بینک اس شخص سے ایک ایسی چیز کی بیع کر رہا ہوتا ہے جو اس کے پاس موجود نہیں ہے اور اس نے ابھی خریدنی ہے۔اگر تو یہ بیع نہیں ہے جیسا کہ بینک کا دعوی ہے بلکہ یہ ایک معاہدہ ہے جو بینک اور اس کے ایجنٹ کے درمیان ہے کہ وہ ایجنٹ اس سے فلاں چیز اس قیمت پر خریدے گا تو ایجنٹ وہ معاہدہ توڑنے کا مجاز ہے یعنی بینک جب ایک چیز کسی شخص کی خواہش پر اس معاہدے کے ساتھ خرید لیتا ہے کہ وہ شخص وہی چیز بینک سے زائد قیمت پر خریدے گا تو اسلامی بینک کے بقول بیع تو ابھی تک نہیں ہوئی لہٰذا وہ شخص معاہدہ توڑ بھی سکتا ہے ، ہاں یہ کر لے کہ معاہدہ توڑنے کے بعداپنے مسلک کے مطابق اگر اس کا کوئی کفارہ بنتا ہے تو وہ اسے ادا کر دے۔لیکن اسلامی بینک اس صورت حال کو کبھی بھی قبول نہیں کرتا ہے اور اگر کسٹمر بیع کا یہ وعدہ پورا نہ کرے اور بینک کو یہ شیء کسی اور شخص کو سستے داموں فروخت کرنی پڑے تو بینک اپنا یہ نقصان پہلے کسٹمر سے پورا کرتا ہے۔[1] لہٰذا یہ معاہدہ نہ ہوا کیونکہ بینک اپنے آپ کوگاہک کے ساتھ اس چیز کی خریداری سے پہلے ایک معاہد(contracter) کی بجائے ایک بائع(seller)کے طور پر پیش (treat)کر رہاہوتاہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بینک کی تو ایک شیء خریدنے کی نیت ہی نہ تھی بلکہ گاہک کے زیادہ قیمت پر خریدنے کی یقین دہانی کروانے پر بینک نے وہ چیز خریدی ہے۔لہذا بینک نے حقیقت میں خرید و فروخت نہیں کی ہے بلکہ سود کووصول کرنے کا ایک حیلہ ایجاد کیاہے۔ [2] تیسری بات یہ ہے کہ بینک بیع مرابحہ سے پہلے اپنے گاہک سے دس فیصد رقم ٹوکن منی (token money)کے طور پر لیتا ہے تاکہ اگر وہ شخص متعلقہ چیز کی خریداری کے بعد بینک کے ساتھ کیا ہوا اپنا معاہدہ توڑ دے اور بینک کو اس چیز کی خریداری میں نقصان ہوا ہو تو بینک اس رقم سے اپنا نقصان پورا کر سکے۔بیع سے پہلے ہی اپنے کسی گاہک سے اس رقم کا لینا اور اس کاستعمال بھی ناجائز ہے ۔مولانا مفتی حافظ ذوالفقار علی صاحب لکھتے ہیں: |