نے بیع مرابحہ کی جس شکل کو بعض روایات کی بنا پر جائز قرار دیاہے، وہ اس صورت سے بہت مختلف ہے جس کو آج کل اسلامی بینک بیع مرابحہ کے نام سے استعمال کر رہے ہیں۔اسلامی بینکوں نے ایک ایسی بیع کانام ’بیع مرابحہ‘ رکھ دیا ہے جو ’بیع مرابحہ‘ نہیں ہے بلکہ شرعی نصوص کے خلاف بیع ہے جیسا کہ حضرت حکیم بن حزام کی روایت ہم نقل کر چکے ہیں ۔ فقہائے اربعہ اور ڈاکٹر عمران اشرف عثمانی صاحب کی بیع مرابحہ کی تعریف میں بہت فرق ہے جو ان تعریفوں کاایک تقابلی تجزیہ کرنے والے شخص کو واضح طور نظر آتا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک شخص کپڑے کی مارکیٹ میں گیا، اس نے ایک ہزار کا کپڑا خریدا، اس کپڑے کو اپنی دکان میں رکھا ، کچھ وقت کے بعد اس کے پاس کوئی گاہک کپڑ ا لینے آیا تو اس نے گاہک کو اصل قیمت خرید بتلائی اور کہا کہ میں تمہیں یہ کپڑا گیارہ سو میں بیچوں گا۔اب اس شخص نے محنت کی ہے، اپنا وقت کھپایا ہے،کپڑاخرید کر دکان میں رکھا ہے وغیرہ۔ یہ خرید و فروخت کا ایک معروف طریقہ ہے ۔جبکہ یہی کام اگر کسی بینک کے ذریعے ہو تو اس کا طریقہ کچھ یوں گا۔ایک شخص کہ جس کو کپڑا چاہیے وہ بینک کے پاس جائے گا اور اس سے کہے گا کہ مجھے یہ کپڑا چاہیے۔اب بینک اس شخص کے لیے یہ کپڑا ایک ہزار روپے میں خریدے گا اور حقیقت یہ ہے کہ دکان پر جاکر اس کپڑے کی خریداری بھی وہی شخص کرتا ہے اور بینک صرف رقم فراہم کرکے کاغذوں میں اس کپڑے کا مالک بن جاتا ہے ۔اب بینک وہی کپڑا اس شخص کو گیارہ سومیں قسطوں پر بیچ دیتا ہے۔ اس صورت میں بینک حقیقت میں کوئی محنت نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ ایک جگہ بیٹھا سرمایہ فرہم کرتا ہے اور صرف کاغذی کاروائی کے بدلے منافع کماتاہے۔بیع کی اس صورت سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ جس میں ایک چیز بیچنے والے کے پاس موجود نہ ہو اور وہ اسے بیچ رہا ہو جیسا کہ ہم حضرت حکیم بن حزام کی روایت سے یہ بات معلوم کر چکے ہیں۔علمائے احناف کے متفقہ فتوی میں ہے: ’’مرابحہ بنوکیہ اور مرابحہ فقہیہ میں کوئی مماثلت نہیں‘مرابحہ فقہیہ میں ابتدا سے قیمت و ثمن کا متعین ہو کر ذمے میں آنا اور لاگت کا یقینی علم اور وجود ضروری ہے جبکہ مرابحہ بنوکیہ میں بینک ثمن کی ادائیگی پہلے نہیں کرتا یا لاگت کا وجود نہیں ہوتا۔اس لیے مرابحہ بنوکیہ ‘اصطلاحی مرابحہ تو درکنار عام کسی بیع کے تحت بھی نہیں آتا۔‘‘ [1] دوسرا اعتراض یہ ہے کہ بیع مرابحہ میں بینک کسی چیز پر اپنے گاہک سے جو منافع لیتا ہے وہ مارکیٹ کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ اسلامی بینک سودی بینکوں کے باہمی تبادلے میں شرح سود میں چار یا پانچ فی صد کا اضافہ( + 4 or 5)کرتا ہے اور اس کا حساب لگا کر اپنے گاہک سے اس چیز کا منافع وصول کر لیتا ہے۔ [2] |