بالباطل‘‘ ہے۔اگر اس معاملے کو بیع کہیں تو بائع(بینک) پر بڑے نقصان ڈالناپہلے کی نسبت بڑا فساد ہے، ایسی بیع ناجائز ہوتی ہے۔‘‘ [1] نواں اعتراض: اجارے میں اسلامی بینک کرایے کا تعین عام سودی بینکوں کی شرح سود کے مطابق کرتا ہے جو حالات کے تحت بدلتا بھی ر ہتا ہے[2] اور یہ ناجائز ہے ۔ [3]علمائے احناف کے متفقہ فتوی میں ہے: ’’اجارہ میں اجرت کی شرح کی تعیین اور تناسب کے لیے روایتی سود کی شرح کو معیار بنانا ہی بنیادی طور پر غلط ہے۔ کیونکہ سودی معاملات کے ساتھ اولاً مشابہت ‘ ثانیاً اشتباہ بھی ہے۔دوسرایہ کہ روایتی سود کی شرح مختلف اوقات میں بدلتی رہتی ہے یا افراط زر کی وجہ سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ایسا اجارہ جس میں اجرت کی شرح و تناسب یقینی طور پر پیشگی معلوم نہ ہو ‘ وہ ناجائز ہے۔‘‘ [4] بیع مرابحہ (cost plus profit) مرابحہ کا لفظ ’ربح‘ سے بنا ہے جس کا معنی ’نفع‘ کا ہے ۔سلف صالحین کے ہاں بیع مرابحہ سے مراد وہ بیع ہے کہ جس میں ایک شخص ایک چیز خریدتا ہے اور پھر وہی چیزکسی دوسرے شخص کو زائد قیمت پر بیچ دیتا ہے لیکن اس بیع او ر ایک عام بیع میں فرق یہ ہوتا ہے کہ بیع مرابحہ میں بیچنے والااپنے گاہک کو اس شیء کی اپنی قیمتِ خرید صحیح صحیح بتلا تا ہے اور پھر اس قیمتِ خرید پر جائز منافع کا مطالبہ بھی کرتا ہے مثلا ًکوئی دوکاندار جب کسی شخص کویہ کہے کہ میں نے یہ کپڑا ایک سو روپیہ میں خریدا ہے اور تم کو ایک سو دس میں بیچتا ہوں تو یہ بیع مرابحہ ہو گی ۔لیکن اگر دوکاندار گاہک کواپنی قیمت خرید نہ بتلائے اور بھاؤ تاؤ کے ذریعے اس کو کپڑ ا کسی منافع پر بیچ دے تو بیع مرابحہ نہ ہو گی بلکہ اس کو’ بیع مساومہ‘ کہتے ہیں۔فقہائے اربعہ کے ہاں بیع مرابحہ کا معنی و مفہوم واضح کرتے ہوئے ڈاکٹروہبہ الزحیلی لکھتے ہیں: ’’هو البیع بمثل الثمن الأول مع زیادة ربح وصورة المرابحة کما ذکر المالکیة هی أن یعرف صاحب السلعة بکم اشتراها ویأخذ منه ربحاً إما على الجملة مثل أن یقول اشتریتها بعشرة وتربحني دینارا أو دینارین وإما على التفصیل وهو أن یقول تربحني درهما لکل دینار أو نحوہ أی إما بمقدار مقطوع محدود وإما بنسبة عشریة. وتعریفها عند الحنفیة نقل ما ملکه بالعقد الأول وبالثمن الأول مع زیادة ربح. وعند الشافعیة والحنابلة هی البیع بمثل رأس المال أو بما قام على |