ہماری سمجھ سے بالا ہے۔اگر تو شیخ کا مقصود یہ ہے کہ قرآن کی آیت کریمہ ﴿وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ ﴾ میں رضعات (گھونٹوں) کی تعداد عمومی طور پر بغیرکسی تعیین کے بیان کی گئی ہے، تو اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ آیت قرآنی مجمل ہے اور اس حدیث نے اس اجمال کی وضاحت کردی ہے کہ وہ کم از کم پانچ دفعہ کا پینا ہے کہ جس سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ اور اگر شیخ کا مقصود یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہوجانے کے باوجود اس آیت کی تلاوت کی جارہی تھی، تو بھی اس میں اشکال والی کوئی بات نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس آیت کے منسوخ ہونے کا علم نہ ہوسکا ہو اور وہ اس آیت کی تلاوت کرتے رہے ہوں، لیکن جب ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس آیت کے منسوخ ہونے کا علم ہوگیا تو انہوں نے اس کی تلاوت کرناترک کر دی۔ یہ بات یاد رہے کہ جس طرح کوئی آیت نازل ہونے کے فوراً بعد لوگوں میں نہیں پھیلتی تھی بلکہ تدریجاً لوگوں تک پہنچتی تھی، اسی طرح جب کوئی آیت منسوخ ہوجاتی ہے تو اس کا علم بھی بالتدریج ہی تمام لوگوں تک منتقل ہوتا تھا۔ رہا اِمام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول کہ ’’لیس على هذا العمل ‘‘ یہ صحیح ہے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انہوں نے حدیث کا انکار کردیاہے ،جیسا کہ شیخ الغزالی رحمہ اللہ نے تبصرہ کیا ہے کہ ’’ورفض الحدیث‘‘،کیونکہ حدیث کا غیر معمول بہ ہونا اور شے ہے اور اس کا انکار ایک دوسری شے ہے۔ ہم مزید یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اِمام مالک رحمہ اللہ کا کہنا کہ یہ روایت ’غیر معمول بہا‘ ہے، تو یہ فقط ان کی اجتہادی رائے ہے، جس میں وہ منفرد بھی نہیں ہیں، بلکہ پانچ رضعات سے حرمت کے ثبوت پراِمام مالک رحمہ اللہ کے ساتھ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مثلا سیدناابن مسعود، عائشہ، ابن الزبیر اور علماے کرام کی ایک جماعت نے بھی موافقت کی ہے۔ جنوں کے وجود کے بارے میں شیخ کا موقف شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ جنوں کے قائل علما پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’کیا جنات کو صرف مسلمانوں پر ہی سوار ہونے کی تربیت دی گئی ہے۔ جرمن ،جاپانی اور امریکی حضرات پر جن سوار کیوں نہیں ہوتے؟ مسلمانوں کی جانب سے اس قسم کے اوہام کا عام ہوجانا، شہرت اسلام کوبدنام کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ جب مختلف جرائد نے شیخ ابن باز رحمہ اللہ (متوفیٰ 1999م) کی جانب سے ایک دیہاتی کے جسم سے بوذی جن نکالا اور پھر اس جن کے مسلمان ہونے کا واقعہ نقل کیا، تو میں قارئین کے چہروں پر دین اور علم کے درمیان لمبی مسافت دیکھ رہا تھا۔‘‘ [1] شیخ کے مذکورہ موقف کا جائزہ انسان کے جسم میں جن داخل ہوجانے کے بارے میں اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( متوفیٰ 728ھ)فرماتے ہیں: |