Maktaba Wahhabi

119 - 126
شیخ موصوف سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ اس اسرائیلی شخص کے ساتھ سیدنا موسیٰ کے قصہ پر کیا موقف رکھتے ہیں، جس کو موسی نے گھونسا مار کر ہلاک کردیا تھا؟ موصوف کا مذکورہ انداز کلام قرآن مجید کے متعدد قصوں کے استخفاف کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ میرے نزدیک شیخ کا موقف بذات خود ایسا ہے کہ جس سے نہ کسی عقیدے کا مسئلہ ماخوذ ہوتا ہے او رنہ ہی کسی عمل کے ساتھ مرتبط ہے۔احادیث کے متعدد فوائد ہیں جن میں سے ایک فائدہ ایمان کی آزمائش بھی ہے کیونکہ متقین ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔‘‘ [1] اگر اس قصہ سے کوئی مسئلہ مستنبط نہیں ہوتا، تو پھر اللہ تعالیٰ نے سلیمان اور چیونٹی کا قصہ کیوں ذکر کیا ہے؟ نیز یوسف کا طویل قصہ ذکرکرنے کا کیا فائدہ تھا، کیونکہ ( شیخ موصوف کے اپنے موقف کے مطابق) اس سے بھی کوئی مسئلہ مستنبط نہیں ہوتا۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ شیخ کے تلامذہ شکوک و شبہات سے بچ جائیں گے اورمستشرقین ان کے موقف کو لے کر قرآن اور سنت دونوں پر اپنے شکوک و شبہات کو تقویت نہیں دیں گے؟ شیخ ربیع بن ہادی المدخلی، شیخ الغزالی رحمہم اللہ کے مذکورہ موقف کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ملک الموت کے ساتھ مذکورہ واقعہ پیش آناقرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہے، اس پر ایمان لانا اور اس میں شک کرنے سے بچنا ضروری اور واجب ہے ۔ اس قصہ میں شک کرنے سے دیگر متعدد قصوں میں بھی شک کرنا لازم آئے گا، جس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ کے بارے میں شیخ موصوف اپنے دل میں الجھن محسوس کرتے ہیں او ران کی عدالت کے سلسلہ میں شک کا شکار ہیں۔ شیخ سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ الجھن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے پیدا ہوئی ہے یا اس حدیث کے راوی إمام الائمۃ فی الحدیث حضرت ابوہریرہ سے؟ نیز براہ کرام ہمیں یہ بھی بتائیں کہ وہ کون سے صحابہ ، ائمہ اربعہ اور فقہا و محدثین رحمہم اللہ ہیں، جنہوں نے حضرت ابوہریرہ کی صحت میں اختلاف کیا ہے؟‘‘ [2] شیخ ربیع بن ہادی المدخلی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’مذکورہ حدیث سنداً ومتناً صحیح ثابت ہے،بلکہ صحت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہے، کیونکہ اس حدیث کو بخاری و مسلم دونوں نے بالاتفاق روایت کیاہے۔ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام یا کسی دوسرے شخص کا موت کو ناپسند کرنا درجہ نبوت کے منافی ہے؟ جس نے شیخ کے دل میں شک پیدا کردیا۔ اگر اس قصہ نے شک پیدا کیا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان سے متعلق موصوف کا کیا موقف ہے: ﴿ فَلَمَّا اَتٰىهَا نُوْدِيَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ يّٰمُوْسٰى اِنِّيْ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ٭ وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ
Flag Counter