Maktaba Wahhabi

120 - 126
وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ يُعَقِّبْ﴾[1] کیونکہ جس ’ عقلی علت‘ کی بنیاد پر وہ مذکورہ قصے کو رد کر رہے ہیں ،وہی ’علت‘ اس آیت میں بھی موجود ہے۔دراصل شیخ موصوف نے یہاں محدثین رحمہم اللہ کے فہم پر حملہ کیا ہے کہ محدثین سطحی فکر کے مالک ہوتے ہیں اور احادیث کی مخفی علتوں سے ناواقف ہوتے ہیں، لیکن مذکورہ دلائل سے واضح ہوجاتا ہے کہ سطحی فکر کا مالک کون ہے؟‘‘ [2] شیخ الغزالی رحمہ اللہ اپنی مذکورہ کے کلام کے بعد رقم طراز ہیں: ’’والعلة یبصرها المحققون وتخفی على أصحاب الفکر السطحی.‘‘ [3] ’’مخفی علت کو محققین پہچان لیتے ہیں جبکہ سطحی فکر کے لوگوں پر وہ مخفی رہتی ہے۔‘‘ شیخ ربیع بن ہادی المدخلی رحمہ اللہ موصوف کی مذکورہ عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ہمارا شیخ موصوف سے سوال یہ ہے کہ وہ مخفی علت کونسی ہے؟ اور اس کو پہچاننے ولے محققین کون لوگ ہیں؟ اور سطحی سوچ رکھنے والے کون لوگ ہیں؟ جن پر یہ علل مخفی رہ جاتی ہیں۔ اس کا جواب غالباً یہی ہے کہ شیخ کے ہاں سطحی فکر کے حامل لوگ اِمام بخاری( متوفیٰ 256ھ)، اِمام مسلم( متوفیٰ 261ھ) اور اِمام نووی( متوفیٰ 676ھ)وغیرہ جیسے فقہاے محدثین اور ائمہ کرام رحمہم اللہ ہیں، جنہوں نے اپنی پوری زندگی خدمت حدیث میں وقف کردی۔ شیخ ان کو سطحی لوگ اس لئے کہہ رہے ہیں، کیوں کہ انہوں نے اس حدیث کو رد کرنے والوں کو بے دین قرا ر دیا ہے۔‘‘ [4] شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کا ایک اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض شیخ موصوف فرماتے ہیں: ’’ ہمیں اس روایت پر بھی تعجب ہے، جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باندی ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ زنا کرنے کی تہمت لگائی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ اس متہم شخص کو قتل کردیں۔ جب علی رضی اللہ عنہ گئے تو دیکھا کہ اس شخص کا تو آلہ تناسل نہیں ہے ، لہٰذا علی واپس آگئے اور اس کو قتل نہ کیا۔ شیخ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کسی شخص پر تہمت کی تحقیق کئے بغیر اس پر حد نافذکردی جائے اور اس کو دفاع کا حق بھی نہ دیا جائے۔‘‘ [5]
Flag Counter