ا لفاظِ قرآن پر مطلع ہونا اور محدثین کرام کا عجز؟ شیخ الغزالی رحمہ اللہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے بارے میں نا مناسب کلمات کہتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وکل ما نحرص علیه نحن شد الانتباه إلى الفاظ القرآن ومعانیه، فجملة غفیرة من أهل الحدیث محجوبون عنها مستغرقون في شئوون أخری تعجزهم عن شرب الوحی.‘‘ [1] ’’ہمارا انتہائی مقصود الفاظِ قرآن اور اس کے معانی پر مطلع ہونا ہے، جبکہ محدثین ایک ایک جملہ سے محروم ہیں اور دیگر کاموں میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے وہ وحی کا مشروب پینے سے عاجز ہیں۔‘‘ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کی یہ بات درست ہے کہ قرآن کے معانی و الفاظ کا اہتمام کرنا عظیم الشان عمل ہے، لیکن موصوف یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ قرآن نے ہی سنت پر عمل کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔ کیا قرآن مجید نے سنت کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم نہیں دیا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا﴾ [2] ’’ نہیں، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تمہارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔‘‘ ہم شیخ موصوف کے خدمت میں ادباً عرض کریں گے کہ کیا یہی فرمایا ہے : ﴿ وَ مَا اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ [3] ’’ جو کچھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روکے اس سے رک جاؤ۔‘‘ اتباع حدیث کے وجوب کے شرعی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی اس کے مؤید ہیں کیونکہ قرآن مجید کی متعدد آیات ایسی ہیں، جن کو سنت کے بغیر سمجھنا ممکن ہی نہیں۔ شیخ کے کلام ’’ محدثین دیگر کاموں میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے وہ وحی کا مشروب پینے سے عاجز ہیں‘‘ کے حوالے سے عرض ہے کہ محدثین اگردیگر کاموں میں مصروف ہیں توکیا انکی رائے میں وہ لہو ولعب میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا فلسفہ اور منطق کو تھامے ہوئے ہیں؟ نہیں! محدثین کی جماعت ہی ایسی جماعت ہے جو فہم قرآن و سنت میں ممتاز ہیں اور حدیث وسنت کا ہر دم دفاع کررہی ہے، نیز اسے بحفاظت اگلی نسلوں تک پہنچارہی ہے۔ |