وعند ما سمعت أن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم وقف على حافة البئر التی دفن المشرکون بها ینا دیهم بأسماءهم کان لها تعلیق جدیر بالتدبر.‘‘ [1] ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک فقیہ محدث اور نصوص قرآن سے باخبر خاتون تھیں اور قرآن پر ادنی سا تجاوز بھی مسترد کردیتیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں قتل کئے گئے مشرکین کو کنوئیں کے پاس جاکر ان کے نام سے لے کر پکارا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا انکار کردیا کہ یہ غلط ہے، کیونکہ اللہ فرماتے ہیں: ﴿ اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ ﴾[2] ’’بے شک آپ مردوں کو سنوا نہیں سکتے اور نہ آپ بہروں کو اپنی پکار سنوا سکتے ہیں۔‘‘ شیخ کے مذکورہ موقف کا جائزہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مانند دیگر صحابہ بھی فقہ،حدیث،ادب اور نصوص قرآن سے بخوبی واقف تھے۔ بدر کے کنوئیں والی اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے وہ صحابہ بھی ہیں، جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فقیہ اور عالم تھے، ان میں سے سیدناعمرفاروق بھی تھے جن کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم اور فقہ کی گواہی دی او ران کوحبرالأمۃ کا لقب عطا کیا۔‘‘ [3] اسی طرح اس حدیث کے راویوں میں سے فقہاء و محدثین صحابہ ابن مسعود، ابوطلحہ، ابن عمر اورانس بھی ہیں، جو سب کے سب کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع اور جاننے والے تھے۔ اگر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو معلوم ہو جاتا کہ اس حدیث کو روایت کرنے میں ابن عمر کے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شریک ہیں، تو وہ ہرگز اس کی مخالفت نہ کرتیں۔شیخ ربیع مدخلی، شیخ الغزالی رحمہم اللہ کے مذکورہ موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’صحیح بات تو یہ ہے کہ مذکورہ روایت دفاع کی محتاج ہی نہیں ہے، کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا، ان مُردوں کو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا دیا تھا۔ لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا معارضہ ناقابل قبول ہے۔‘‘ [4] شیخ سلمان بن فہد العودہ رحمہ اللہ ، شیخ الغزالی رحمہ اللہ کے مذکورہ موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ شیخ الغزالی رحمہ اللہ گویا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر یہ اعتراض کررہے ہیں کہ وہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام نہیں کرتی تھیں۔ جمہور اہل علم و فقہا رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے کہ مذکورہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ یہ حکم انہی کے ساتھ خاص ہے۔‘‘ [5] |