کہ ثقہ راوی ایسی حدیث نقل کرے جو دیگر لوگوں کی نقل کردہ حدیث کے مخالف ہو۔‘‘ معلول کی تعریف حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ (متوفیٰ 643ھ) اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں: ’’حدیث میں کوئی ایسا سبب پایا جائے جو اسکی صحت کو گدلا کردے باوجودیکہ ظاہری طور پر وہ حدیث صحیح ہو۔‘‘ [1] فقہاء رحمہم اللہ اور محدثین رحمہم اللہ کی بیان کردہ شاذ او رمعلول حدیث کی تعریفات سے معلوم ہوا کہ اس میں’’صحیح احادیث کی قرآن سے مخالفت‘‘ والا اصول کہیں مذکور نہیں ہے، جسے شیخ الغزالی رحمہ اللہ نے بیان کیا ۔ احترامِ انسانیت اور عدل و مساوات شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ ہمارا موقف احترامِ انسانیت اور عدل و مساوات کے زیادہ قریب ہے۔ کیا اس عدل و مساوات کا یہ مطلب ہے کہ کفر و ایمان کو مساوی کردیا جائے اور کافروں اور مومنوں کے درمیان فرق مٹا دیا جائے؟جبکہ قرآنِ مجید مسلمانوں اور مجرموں کو برابر قرار نہیں دیتا: ﴿ اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ﴾[2] ’’کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کے برابر کر دیں گے؟‘‘ درحقیقت کافر کی کوئی حرمت نہیں ہے اور جو معاہد اور ذمی کو محدود حرمت دی گئی ہے، وہ اس لئے ہے کہ اس نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے ذمہ میں داخل کرلیا ہے، لیکن کیا کسی ذمی کے مرجانے پر ہم اس کا جنازہ پڑھیں گے؟ اس کومسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں گے ؟اور اس کے لئے استغفار کریں گے ؟ اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ لَا تُصَلِّ عَلٰى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا ﴾[3] ’’اور آپ ان میں سےکسی کی بھی جنازہ نہ پڑھیں۔‘‘، اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ ﴾ ’’سوائے اس کے نہیں ، مشرک نجس ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کو امام بخاری(متوفیٰ256ھ)، امام ترمذی(متوفیٰ279ھ)، امام نسائی (متوفیٰ303ھ)، امام دارمی (255ھ) اور امام عبدالرزاق (متوفیٰ 211ھ) رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے اور دیگر متعدد روایات اس کی شاہد موجود ہیں۔ بدر کے کنوئیں پر مقتول مشرکین سے خطاب والی حدیث کے بارے میں شیخ کا موقف شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وأم المؤمنین عائشة، فقیهة محدثة أدیبة، وهی واقفة عن نصوص القرآن، ترفض أدنى تجاوز لها، |