Maktaba Wahhabi

114 - 126
شیخ ربیع مدخلی، محمد الغزالی رحمہ اللہ کی مذکورہ کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فقہاء اُمت اور محدثین کرام رحمہم اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان عورت کی دیت مسلمان مرد کی دیت کا نصف حصہ ہے جبکہ شیخ الغزالی رحمہ اللہ اپنی لاعلمی میں اس متفق علیہ حکم کو فقط محدثین رحمہم اللہ کی جانب منسوب کررہے ہیں، تاکہ ان پر جھوٹ اور مخالفت قرآن کی تہمت لگا سکیں ،لیکن اللہ تعالیٰ نے شیخ محمد کی غلطی کو کھول دیا ہے تاکہ عام مسلمان اس گمراہ کن موقف سے بچ سکیں۔‘‘ [1] خبر واحد میں مخفی علت اور احترام انسانی کا فلسفہ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ خبر واحد بسااوقات صحیح سند ہونے کے باوجود کسی مخفی علت کی بناء پر ضعیف ہوجاتی ہے۔ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کفار میں سے جو ہم سے لڑائی کرے گا، ہم بھی اس سے لڑائی لڑیں گے اور معاہد ذمی کے قاتل سے قصاص لیا جائے گا۔اس بنیاد پر«لا یقتل مسلم في کافر))والی حدیث کو رد کردیا جائے گا اگرچہ اس کی سند صحیح ہے، کیونکہ اس حدیث کا متن مخالف نص قرآنی ﴿ النفس بالنفس﴾ کی وجہ سے معلول ہے اورہم دیکھتے ہیں کہ فقہ حنفی احترام انسانی کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ شیخ ربیع بن ہادی المدخلی، شیخ الغزالی رحمہ اللہ کے مذکورہ قول پرتبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’صحیح بات تو یہ ہے کہ شیخ الغزالی، فقہاء کرام رحمہم اللہ اور محدثین عظام رحمہم اللہ کی جانب سے پیش کیے گئے ’علت و شذوذ‘کے تصور کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اپنے من پسند اصولوں کو ہی محدثین رحمہم اللہ و فقہاء رحمہم اللہ کے اصول قرار دیتے ہیں۔مزید برآں شیخ موصوف میں اتنی قوت استدلال نہیں کہ وہ محدثین کرام رحمہم اللہ اور فقہاے عظام رحمہم اللہ کی قائم کردہ’ علت و شذوذ‘کی تعریفات کا عملی مثالوں پر انطباق کرسکیں۔‘‘ [2] شاذ کی تعریف شاذ کی متعدد تعریفات ہیں، جن میں سے بہترین تعریف اِمام شافعی رحمہ اللہ کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’لیس الشاذ من الحدیث أن یروی الثقة ما لایروی غیره، هذا ليس بشاذ ، إنما الشاذ أن یروی الثقة حدیثا یخالف فيه الناس. ‘‘[3] ’’شذوذیہ نہیں ہے کہ ثقہ راوی ایسی حدیث روایت کرے جو اس کے غیر نے نقل نہیں کی ہے، بلکہ شذوذ یہ ہے
Flag Counter