Maktaba Wahhabi

112 - 126
یہ کلام کئی اعتبار سے محل نظر ہے: بعض رواۃ سے غلطی ہوجانا کوئی بعید از قیاس امر نہیں ہے، لیکن مذکورہ حدیث میں حضرت عمر نے کوئی غلطی نہیں کی، کیونکہ اس حدیث کو حضرت عمر کے علاوہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور روایت کیا ہے۔ لہٰذا ان تمام صحابہ پر وہم او رغلطی کا حکم لگانا بعید بلکہ محال ہے۔ [1] وہ صحیح احادیث جن کو اُمت نے تلقی بالقبول سے نوازا ہے، فقہاے کرام رحمہم اللہ اور محدثین عظام رحمہم اللہ سمیت تمام اہل علم نے ان کی صحت پر اتفاق کیاہے۔ اب امت اسلامیہ میں سے کسی شخص کے لیے جائز نہیں وہ نئے قواعد و ضوابط گھڑے، تاکہ ان کے خلاف آنے والی صحیح احادیث نبویہ کو رد کیا جاسکے۔ [2] ائمہ فقہ کا کام ہے کہ وہ صحیح احادیث کی تشریح وتعبیرپیش کریں، کیونکہ ان کے اجتہادی قواعد و اصول قرآن و سنت مطہرہ دونوں سے ماخوذ ہیں۔ اس لیے آئمہ فقہ و حدیث کا متفقہ عقیدہ ہے کہ صحیح حدیث قرآن کے مخالف ہو ہی نہیں سکتی۔ [3] مزید برآں قرآن کریم کے اجمالات کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر سمجھنا اور ان کی تفاصیل کو پیش کرنا ناممکن ہے۔ سیدنا عمران بن حصین نے ایک آدمی سے کہا تھا: ’’توبیوقوف ہے، کیا تو نے قرآن مجید میں پڑھا ہے کہ ظہر کی نماز چار رکعات ہیں؟ ظہر میں قراء ت سری ہے، اسی طرح نمازوں کی تعداد، زکوٰۃ کی تفصیلات قرآن میں کہاں موجود ہیں؟پھر کہا :’’بے شک کتاب اللہ مجمل ہے او رسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تفسیر کرتی ہے۔‘‘ [4] ایک آدمی نے سیدنا مطرف بن عبداللہ الشخیر سے کہا: ہمیں قرآن کے علاوہ کچھ بیان نہ کرو۔ اس کو مطرف نے کہا: ’’ہم قرآن کے بدلے میں کچھ بیان نہیں کرتے، مگر ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس آدمی (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سمجھ کے مطابق قرآن کو بیان کریں جو ہم سے زیادہ قرآن کو سمجھنے والا تھا۔‘‘ [5] عورت کی دیت کے مسئلہ پر شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کا موقف شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وأهل الحدیث یجعلون دیة المرأة على النصف من دیة الرجل وهذه سوأة فکریة وخلقیة رفضها
Flag Counter