اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سمیت کسی بھی اِمام سے صحیح احادیث کو رد کرنے کے درایتی اصول ثابت نہیں ہیں بلکہ تمام ثقہ ائمہ حدیث و تفسیر اس امر پر متفق ہیں کہ ثابت شدہ (صحیح) حدیث کے مخالف ان آئمہ کے اقول کو رد کردینا واجب ہے۔ رہی بات مخفی علتوں کے ظہور کی تو محدثین کراماس کے زیادہ حق دار اور اہل ہیں، کیونکہ تحقیق حدیث انہیں کا میدان ہے۔ اسی طرح مذکورہ حدیث کی تردید کر کے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے صحیح احادیث کو رد کرنے کا کوئی منہج پیش نہیں کیا، بلکہ یہ ان کی انفرادی رائے تھی کہ جس کی غلطی واضح ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء رحمہم اللہ اور محدثین رحمہم اللہ میں سے کسی نے بھی ((إن المیت لیعذب ...))والی حدیث کو رد کرنے پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیروی نہیں کی۔ اس سلسلہ میں شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کے کلام کا انداز غیر مناسب ہے، جیسا کہ ان کا یہ قول: ’’هذا الحدیث المرفوض‘‘ یعنی ’’یہ پھینکی ہوئی حدیث ‘‘ کے الفاظ اس بات پر دلالت کر رہے ہیں۔سنت کی عظمت و جلالت کو جاننے والا شخص اس قسم کے غیت مناسب کلام کو پڑھ کر یہی تاثر قائم کرے گا کہ علما کا کلام اس انداز کانہیں ہونا چاہیے۔ مزید برآں فقہاء رحمہم اللہ اور محدثین رحمہم اللہ میں سے کسی کے ہاں بھی یہ حدیث پھینکی جانے والی نہیں ہے۔ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ آج تک اس حدیث کے کتب صحاح میں موجود رہنے پر بھی معترض ہیں اور وہ حسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ایسی احادیث ان کتب سے خارج کیوں نہیں کردی گئیں اور اسی بناء پر محدثین کرام رحمہم اللہ کو اپنی تنقید کا ہدف بناتے ہیں۔ [1] شیخ موصوف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فقہا کا اصول ہے کہ ثابت نافی پر مقدم ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث مخفی رہ گئی ہو اور دیگر متعدد صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ [2] روایت ِ صحیحہ اور قرآن میں تعارض سے متعلق شیخ کامنہج سابقہ حدیث ذکر کرنے کے بعد شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ اور میرے پاس وہی منہج ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا منہج تھا کہ کتب صحاح کو قرآن پر پیش کیا جائے کیونکہ قرآن ہر غلطی سے محفوظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایات کے قبول و رد کے سلسلے میں فقہاء نے جو اصول وضع کئے ہیں ان میں بنیادی طور پر قرآن پر اعتماد کیا ہے۔ اگر کوئی روایت قرآن کے موافق ہوتی تو اس کو قبول کرلیتے ورنہ قرآن پر ہی عمل کرتے۔‘‘ [3] |