معرفت ِ علل اور فقہاے کرام رحمہم اللہ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وقد یصح الحدیث سنداً ویضعف متنا بعد اکتشاف الفقهاء لعلة کافیة منه. ‘‘[1] ’’بسا اوقات حدیث سنداً صحیح ہوتی ہے جبکہ متناً ضعیف ہوجاتی ہے جب فقہاے کرام رحمہم اللہ اس میں مخفی علت کو کھول دیتے ہیں۔ ان علل و شذوذ کا کھولنا علماے سنت (محدثین) پر منحصر نہیں ہے، بلکہ علماے تفسیر و اصول اور علماے فقہ اس کے مسئول اور ذمہ دار ہیں۔‘‘ شیخ موصوف رحمہ اللہ نے اپنے مذکورہ اصول کے تحت بہت سی صحیح احادیث کو رد کردیا ہے۔ ہم ذیل میں چند نمایاں مسائل کے حوالے سے شیخ کے موقف کو بمع مکمل تجزیہ پیش کریں گے جس سے شیخ کے علم الحدیث اور اس فن کے ماہرین سے متعلق خیالات سامنے آسکتے ہیں۔ المیت یعذب ببکاء أهله پر شیخ محمد الغزالی کا موقف اس حدیث کے حوالے سے شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث کو سنا تو اس کا انکار کردیا اور قسم کھا کرکہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں نہیں فرمایااور بطور استدلال قرآن کی یہ آیت تلاوت کی: ﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث ظاہر قرآن کے خلاف ہے اور ناقابل قبول ہے۔یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے انکار اور ظاہر قرآن کے خلاف ہونے کے باوجود آج تک کتب صحاح میں موجود ہے، بلکہ ابن سعد (متوفیٰ 168ھ) رحمہ اللہ تواپنی طبقات میں اس حدیث کومتعدد سندوں کے ساتھ لائے ہیں۔‘‘ [2] مذکورہ مثال کا جائزہ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کے مذکورہ کلام پر متعدد ملاحظات ہیں: شیخ محمدالغزالی رحمہ اللہ کے کلام سے محسوس ہوتا ہے کہ فقہاے کرام رحمہم اللہ اور محدثین عظام رحمہم اللہ کے منہج میں فرق ہے، حالانکہ درحقیقت محدثین کرام رحمہم اللہ اور فقہاے عظام رحمہم اللہ کا منہج بعینہٖ ایک ہے۔ صرف مذہب اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 150ھ) کے چند اصول، محدثین کرام رحمہم اللہ کے اصولوں سے کچھ مختلف ہیں، ورنہ من حیث المجموع ائمہ اربعہ سمیت تمام علماے امت اپنے منہج کے اعتبار سے اہل سنت والجماعت میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ چند جزوی اختلاف کی بنا پر ان کے درمیان خط امتیاز کھینچنا کوئی مناسب رویہ معلوم نہیں ہوتا۔ |