کے درمیان کھڑکیاں بنا دی گئیں کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھتے جاتے تھے۔‘‘ [1] امام ابن عطیہ رحمہ اللہ واقعہ غرق فرعون کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’﴿ وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ ﴾ جب موسی اپنی قوم کو لے کر بحر قلزم کے ساحل پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ حکم دیا کہ اپنی لاٹھی کو سمندر پرمارو۔جس سے سمندر میں بارہ رستے بن گئے او رہر ہر قبیلہ ایک ایک رستے میں داخل ہوگیا۔ سمندر میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ ہمارے دوسرے ساتھی تو غرق ہوگئے ہیں۔ چنانچہ حضرت موسی نے اللہ تعالیٰ سے ان کے برے اخلاق کے سبب دعا کی کہ میری مدد فرما! اللہ نے کہا : اپنا عصا گھماؤ۔ حضرت موسی نے عصا گھمایا تو ان رستوں کے درمیان روشن دان بن گئےکہ جن سے وہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے سمندر سے پارنکل گئے۔ ادھر فرعون اپنے لشکر کو لےکر ساحل سمندر پر پہنچا ... آل فرعون سمندر میں داخل ہوگئی ... جب وہ سارے سمندر میں داخل ہوگئے تو ان پر سمندر منطبق ہوگیا اور وہ سب غرق کردیئے گئے۔‘‘ [2] مذکورہ بالا تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسی او ران کی قوم کو فرعون سے نجات دینے کے لئے سمندر کے پانی کو ساکن کردیا تھا جو بڑے بڑے پہاڑوں کی مانند اپنی اپنی جگہ پرکھڑا ہوگیا اور پانی کے پہاڑوں کے درمیان رستے بنا دیئے گئے کہ جن میں سے وہ گزر رہے تھے۔ جب فرعون اور اس کا لشکر ان رستوں میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے پانی کودوبارہ جاری کردیا او رپورے لشکر کو اس میں غرق کردیا گیا۔ لیکن فراہی صاحب نے جو قصہ بیان کیا ہے اور اس میں ہواؤں کے کردار کے حوالے سے گفتگو کی ہے وہ قدیم مفسرین میں سے کسی کے نزدیک بھی منشائے متکلم نہیں ہے ۔ قوم لوط کی ہلاکت غبار انگیز ہوا کے ذریعہ سے ہوئی قوم لوط پر عذاب کے حوالے سے مولانا فراہی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ ان کی تباہی بھی ہوا کے ذریعے سے ہی ہوئی ہے۔ ان پر تیز آندھی چلی جس سے ان کے مکانات کی چھتیں زمین کے برابر ہوگئیں او راوپر سے کنکریوں اور ریت نے ان کوڈھانپ لیا ۔ لکھتے ہیں: ’’قوم لوط پر اللہ تعالیٰ نے غبار انگیز ہوا بھیجی جو سخت ہوکر بالآخر حاصب (کنکر پتھر برسانے والی تند ہوا) بن گئی۔ اس سے اوّل تو ان کے اوپر کنکروں اور پتھروں کی بارش ہوئی۔ پھر انہوں نے اس قدر شدت اختیار کرلی کہ اس کے زور سے ان کے مکانات بھی الٹ گئے۔چنانچہ انہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: |