فکر و نظر بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم اللہ کی کامل بندگی ہی تمام مسائل کا حل ہے! اسلام اللہ کی 'اطاعتِ کاملہ' بجا لانے کا نام ہے۔اللہ کی یہ بندگی(عبادت وعبدیت ) دیگر مذاہب کی طرح محض پوجا پاٹ کا تصور نہیں بلکہ زندگی کے ہر مرحلے؛ شخصی وانفرادی یا اجتماعی وملّی ہر میدان میں اللہ کے احکام و ہدایات پر چلنے کا نام ہے۔انبیا کا مقصدِ بعثت یہی رہا ہے کہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں اور جو اللہ تعالےٰ نے نازل کیا ہے، اس کی لوگوں کو تلقین وتعلیم کریں۔جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے : ﴿يٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِنّا أَرسَلنٰكَ شٰهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذيرًا () وَداعِيًا إِلَى اللّٰهِ بِإِذنِهِ وَسِراجًا مُنيرًا ﴾[1] ''اے نبی! یقیناً ہم نے آپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے، خوشخبریاں سنانے اورآگاه کرنے والا بھیجا ہے۔اور اللہ کے حکم سے اسکی طرف بلانے والا اور روشن چراغ۔'' اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے فریضہ رسالت کی یوں تلقین کی کہ ﴿ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَبِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ﴾ [2] ''اپنے ربّ کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے ...'' ﴿يٰأَيُّهَا الرَّسولُ بَلِّغ ما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَبِّكَ ۖ وَإِن لَم تَفعَل فَما بَلَّغتَ رِسالَتَهُ﴾[3] ''اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے ربّ کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔اگر ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔'' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرض بہ تمام وکمال پورا فرمایا اور خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق حاضرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان الفاظ میں چاہی کہ |