سے مراد باجماعِ امت ایامِ تشریق ہیں یعنی ذو الحجہ کی 11، 12، 13تواریخ تو اب یہ پتہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان گنتی کے دنوں میں اپنے ذکر کا جو حکم دیا ہے، اس سے اس کی کیا مراد ہے؟ سو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس آیت میں اگرچہ 'ذکر' کا لفظ مطلق وارد ہوا ہے لیکن اسی سلسلے کی دوسری آیت جو سورۂ حج میں وارد ہوئی ہے، اس سے ذکر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ اس سے مراد ایام تشریق میں قربانیوں کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ہے چنانچہ اس سلسلے میں علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ ''ايام معدودات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے وقت اُن پر اللہ کا نام لیا جائے۔ اور یہ بات پہلے گذر چکی ہے کہ اس سلسلے میں راجح امام شافعی کا مسلک ہے کہ قربانی کا وقت یوم النحر سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن تک (یعنی 13تک ) ہے۔''[1] نیز امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں واحدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ''ایام تشریق یوم النحر کے بعد تین دن ہیں۔ یوم النحر کے ساتھ یہ تینوں دن بھی قربانی کے ایام ہیں۔''[2] دوسری آیت اسی سلسلے میں ایک دوسری آیت سورۂ حج میں آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سیدنا ابراہیم کو حج کی منادی کا حکم دیتے ہوئے، نیز حج کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿وَأَذِّن فِى النّاسِ بِالحَجِّ يَأتوكَ رِجالًا وَعَلىٰ كُلِّ ضامِرٍ يَأتينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَميقٍ ﴿27﴾ لِيَشهَدوا مَنـٰفِعَ لَهُم وَيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ ۖ فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا البائِسَ الفَقيرَ ﴿28﴾[3] ''یعنی اے ابراہیم! تولوگوں میں حج کی منادی کر دے، وہ پیادہ اور دبلی پتلی اونٹنیوں پر سوارہوکر دور دراز راستوں سے تیرے پاس آئیں گے، تاکہ اپنے نفع کے کاموں کو |