اصلاح معاشرہ ندا اشرف حضرت لقمان علیہ السلام کی نوجوانوں کو نصیحتیں نوجوان آج کے باغ و بہار اور مستقبل کا قیمتی اثاثہ ہیں۔'نوجوان'ایسی نسل ہےجس کی ہر دور میں قدر و قیمت رہی ہے۔ان کی تعلیمی یا تربیتی عمل میں کہیں ذرا سی بھی کمی واقع ہو تو معاشرہ اضطراب کی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے۔آج کا معاشرہ بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال میں اُلجھا ہوا ہے۔جرائم کی اکثریت ، معاشرتی بگاڑ ، لادینیت کی اندھی تقلید، بدامنی، قتل و فساد اور ہر طرف بے سکونی کی فضا چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ان مسلمان نوجوانوں کی گمراہی اور بے راہ روی کی بنیادی وجہ دینِ اسلام سے دوری ہے۔اسلامی تہذیب و تمدن کو روندتے ہوئے یہ نوجوان آج خود کو دنیا کی تیز رفتار ترقی اور اس جہاںِ فانی میں کامیابی کے حصول کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں مگر در حقیقت یہ نوجوان طبقہ گمراہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔یہ صورتحال مزید سنگینی اختیار کرتی جا رہی ہے۔غیر اسلامی رسومات ، ذرائع ابلاغ کا بڑھتا ہوا منفی رجحان اور دشمنانِ دین کے اوچھے ہتھکنڈوں نے اُمّتِ مسلمہ کے ان نوجوان طبقہ کے فکر وسوچ کوبڑی حد تک متاثر کیا ہے اوریوں یہ طبقہ گمراہی میں زیادہ مبتلا نظر آتا ہے۔ اسلام جو ہمہ گیر مذہب ہے،انسانی زندگی کے ہر پہلو کے لیے اُصول مرتب کرتا ہے۔ اسلام نے بچوں کی تعلیم و تربیت، فطرت سلیمہ کی تبدیلی اور امن سے انحراف کا پہلا ذمہ دار ماں باپ کو قرار دیا ہے۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ)) [1] ''ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے،پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔'' |