بھی حیثیت سے ، عورت کواپنی مالی کفالت کا ذمہ دار نہیں بنایا، بلکہ یہ فرض اس کے قریبی مردوں کے سپرد کیا ہے، اسلام کے طبقہ نسواں پر اس سے بڑا کیا احسان ہوسکتا ہے!! اسلامی نظام میں عورت کو گھر کی پناہ گاہ سے باہر آنے پر مجبور کیے بغیر تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں اور اس کی مکمل کفالت اور تمام ضروریات کی تکمیل مرد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔مسلم دنیا میں خاندان کا ادارہ اسی بنا پر آج بھی مستحکم ہے اور مسلمان معاشروں میں عورتیں بالعموم ان مسائل سے دوچار نہیں ہیں جن سے مغرب کی عورت کو شب و روز سابقہ درپیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی عورت اس سپروومن رول ماڈل سے بیزار ہوچکی ہے جس کا جھانسا دے کر اسے اپنے گھر کی جنت سے نکال کر کارگاہوں اور بازاروں کی زینت بنایا گیا ہے اور پانچ ہزار عورتوں سے انٹرویو کے بعد ان کی بھاری اکثریت کی آرا کی روشنی میں ٹاپ سانتے کی ایڈیٹر کو کہنا پڑا ہے کہ Working women are heartily sick of these do it all role models. It is time for superwoman to be put back in her box. ''ملازمت پیشہ عورتیں ہر چیز کی ذمہ داری والے اس طرزِ زندگی سے شدید طور پربیزار ہوچکی ہیں، وقت آگیا ہے کہ سپروومن اپنے گھر واپسی کی راہ لے۔''[1] ان تفصیلات سے واضح ہےکہ خدائی ہدایات سے بےنیاز ہوکر اور فطرت کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے مغربی تہذیب نے عورت کو مرد بنانے کی جو احمقانہ کوشش کی، اس کے نتیجے میں وہ نہ پوری طرح مرد بن سکی، نہ پوری عورت رہ سکی۔ اس بنا پر آج وہ شدید مسائل کا شکار اور اس صورت حال سے چھٹکارے کی آرزو مند ہے۔یہی کیفیت اسلام کی جانب مغربی خواتین کے رجوع کا ایک بنیادی سبب ہے جس کے شواہد آئے روز ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ [IPS، اسلام آباد سے حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب 'عورت،مغرب اور اسلام' کا ایک اہم باب] |