منافع کمایا، اس پوری مدت میں امریکی محنت کش کو کوئی اضافی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ امریکی کارکنوں کی اُجرتیں 1978ء سے ایک ہی سطح پر برقرار ہیں یا گھٹ رہی ہیں۔'' اُس کے مقابلے میں اعلیٰ افسران کے معاوضے بڑھتے چلے گئے اور اس تحقیق کے مطابق آج کیفیت یہ ہے کہ ان کی آمدنی ایک عام کارکن سے سات سو گنا تک زیادہ ہے۔ پروفیسر گٹ مین نے اسے زیادہ آسان پیرائے میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک چیف ایگزیکٹیو آفیسر آدھے دن میں اتنا کما لیتا ہے جو ایک مزدور سال بھر میں بھی مشکل سے کما پاتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ایک فی صد امیر ترین لوگ ، نیچے کے 95 فی صد لوگوں سے زیادہ وسائل کے مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''اس بات پر یقین کرنا ان لوگوں کے لیے مشکل ہوگا جو ٹی وی پرو گراموں میں امریکیوں کو اسپورٹس گاڑیاں چلاتے اور سجے سجائے گھروں میں بسا دیکھتے ہیں لیکن معاشی حقیقت یہ ہے کہ امریکی خاندانوں کے معیارِ زندگی میں جو اضافہ بھی ہوا ہے، وہ تقریباً سب کا سب عورتوں کے بڑے پیمانے پر ورک فورس میں شامل ہونے کا نتیجہ ہے، اور گھریلو اخراجات جو پہلے ایک کمانے والے کی آمدنی سے پورے ہوجاتے تھے، اب اُن کے پورے ہونے کا دارومدار دو افراد کی آمدنی پر ہے۔بچوں کی دیکھ بھال، گھر کا انتظام ، کھانا پکانا، یہ چیزیں اب روز مرہ کام کا حصّہ نہیں بلکہ اضافی بوجھ ہیں۔''[1] واضح رہے کہ امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا بے انصافی پر مبنی نظام سرمایہ داری کے سبب گزشتہ کئی برس سے جس معاشی بحران کا شکار ہے، اس کی وجہ سے عام آدمی کے حالات مزید ابتر ہوئے ہیں اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت کے باعث پوری مغربی دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ عورت کا استحصال اس نظام کا ایک بنیادی وصف ہے۔ زوجیت، مادریت اور خانہ داری کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مردوں کی طرح معاشی جدوجہد بھی اس کی مجبوری بنا دی گئی ہے جبکہ اسلام میں مردوں اور عورتوں کے دائرہ کار واضح طور پر الگ الگ ہیں۔ اور اسلام نے زندگی کے کسی مرحلہ پر، اور کسی |