Maktaba Wahhabi

92 - 111
سستی لیبر کے لیے سرمایہ داری کی چال مغرب میں عورت کا یہ حالِ زار دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی عورت کے خلاف خوفناک سازش کا نتیجہ ہے جسے آزادئ نسواں کا دلکش اور پُرفریب نام دیا گیا۔ اب یہ کوئی راز نہیں کہ آزادئ نسواں اور مساواتِ مرد و زن کی تحریکوں کے نام پر عورت کو گھر داری اور نئی نسل کی پرورش اور تربیت کے فطری فریضے کی ادائیگی کے لیے فارغ رکھے جانے سے دراصل روکا ہی اس لئے گیا تھا تاکہ اسے گھر سے باہر لاکر سرمایہ داری نظام کی ضرورت کے مطابق کارخانوں اور دفاتر کے لئے سستی لیبر فراہم کی جاسکے اور عشروں سے ان معاشروں میں عورت کا عملی کردار یہی ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ فطرت سے بغاوت کے کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے چنانچہ مغرب، خاندانی نظام کے تقریباً مکمل خاتمے کی صورت میں آج فطرت کے خلاف کی گئی اس بغاوت کے انجام سے دوچار ہے جس پر چیخ پکار تو سنائی دیتی رہتی ہے مگر اب اس گاڑی کو ریورس گیئر لگانا بہت مشکل ہے۔ عورت کی معاشی جدوجہد، خوشحالی کا ذریعہ؟ ایک عام تصور یہ ہے کہ عورت کو چوکوں اور بازاروں میں کھینچ لانے سے مغرب کا خاندانی نظام اور گھریلو سکون چاہے کتنا ہی برباد ہوگیا ہو مگر کم از کم معاشی طور پر عام آدمی بھی بہت خوشحال ہوگیا ہے، لیکن یہ بھی بس ایک خیال خام ہی ہے ۔ امریکہ کی وَرمونٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ہک گٹ مین(Huck Gutman) امریکہ میں معاشی عدم مساوات کے موضوع پر اپنے ایک مقالے میں جو پاکستان کے ممتاز انگریزی اخبار 'ڈان' میں بھی یکم جولائی 2002ء کو شائع ہوا، لکھتے ہیں: ''اگرچہ لگتا ہے کہ امریکہ کے لوگ ناقابل تصور امارت سے لطف اندوز ہورہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر امریکیوں کو پیٹ بھر کھانا بھی نہیں ملتا اور ایک قابل لحاظ تعداد بھوکی رہ جاتی ہے۔ '' وہ کہتے ہیں کہ ''گزشتہ صدی کی آخری چوتھائی جس میں امریکی کارپوریشنوں نے پوری دنیا میں اپنی طاقت اور اثرورسوخ بڑھا کر بھاری
Flag Counter