وقف کردینا ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے شوہروں یا مرد پارٹنروں کی نسبت زیادہ کماتی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں بھی، جو موجودہ مغربی تہذیب کا امامِ اوّل ہے اور جس نے پوری مغربی دنیا کو اس راہ پر لگایا ہے، مساواتِ مرد و زن کے تمام دعووں کے باوجود سروے کے مطابق اب تک عورتیں ہی گھر اور خاندان کے اُمور کے لیے بنیادی طور پر جواب دہ اور ذمّہ دار ہیں حالانکہ وہ مردوں ہی کی طرح اپنا پورا دن ملازمت کی مصروفیت میں گزار کر تھکی ہاری گھر پہنچتی ہیں۔ اپنی ان سہ طرفہ مستقل اور سخت ذمہ داریوں کی مسلسل ادائیگی نے انہیں زمین سے لگا دیا ہے۔ جو لیٹ کیلو کا کہنا ہے کہ ایک کل وقتی گھریلو خادمہ، ملازمت پیشہ عورتوں کی اکثریت کیلئے دیومالائی خواب ہے۔ بہتر معاوضے والی جزوقتی ملازمتیں ان گھر بار والی عام ملازمت پیشہ عورتوں کے مسئلے کا ایک حد تک حل ہوسکتی ہیں لیکن یہ انتہائی کمیاب ہیں اور ان کا حصول نہایت دشوار ہے۔ سروے کے مطابق 57 فیصد برطانوی کمپنیاں اب تک اپنے ہاں ملازمت کرنے والی عورتوں کو ماں بن جانےکی صورت میں کوئی رعایت اور کوئی الاؤنس نہیں دیتی ہیں خواہ ملازمت جاری نہ رکھ پانے کی وجہ سے کمپنیوں کو ان کے تجربے اور صلاحیتوں سے محروم ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ سروے میں بتایا گیا ہےکہ گھر اور بچوں کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ملازمت کی مشقت عورتوں کی صحت کو بُری طرح متاثر کررہی ہے۔ ذہنی اور جسمانی طور پر تازہ دم ہوکر صحت مند رہنے کے لئے کم سے کم ناگزیر وقت بھی ان عورتوں کےپاس نہیں ہوتا۔ ان غریب عورتوں کا طرز زندگی پریشر کُکر جیسا بن کر رہ گیا ہے۔ وہ اپنی مختلف النوع ذمہ داریوں کی بنا پر مسلسل دباؤ میں رہتی ہیں اور اُنہیں ایک کام سے دوسرے کام کی طرف دوڑتے رہنا پڑتا ہے چنانچہ اُن کے رویے میں جارحیت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ سروے میں ملازمت پیشہ عورتوں کی عمومی صورت حال سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر مالی مجبوریاں نہ ہوں تو برطانیہ کی 48 فیصد ملازمت پیشہ عورتیں صرف آرام کرنا پسند کریں گی ۔ 32 فیصد گھر داری اختیار کرنے کا فیصلہ کریں گی اور صرف 20 فیصد ملازمت جاری رکھنے کو ترجیح دیں گی۔[1] |