Maktaba Wahhabi

90 - 111
کا عموماً بطور خاص ذکر کرتی ہیں۔ تاہم ذیل میں اس حوالے سے کئی ہزار برطانوی عورتوں کی ایک کھلی گواہی پیش کی جارہی ہے جو ہر معقول شخص کیلئے سوچ بچار کا بڑا سامان رکھتی ہے۔ 94 فیصد برطانوی عورتیں 'سپر وومین رول ماڈل' سے بیزار برطانیہ کی خواتین بیک وقت گھریلو ذمہ داریوں اور ملازمت کی ذمہ داریوں کو بھاری بوجھ محسوس کرتی ہیں۔ خواتین کے بہت سے میگزین اکثر ایسی آرا اور معلومات پیش کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹاپ سانتے(Top Sante) نامی برطانوی میگزین کے ایک سروے کے مطابق، جس کی تفصیلات ہم نے برطانوی اخبار 'ڈیلی میل' میں شائع ہونے والی رپورٹ سے لی ہیں، برطانیہ کی 94 فیصد ملازمت پیشہ خواتین کا کہنا ہے کہ وہ زوجیت ، مادریت اور ملازمت کے تقاضے بیک وقت پورے کرتے کرتے بے دم ہوچکی ہیں اور اس سپر وومن رول ماڈل سے نجات کی آرزو مند ہیں۔ میگزین کی ایڈیٹر جولیٹ کیلو (Juliet Kellow) جنہوں نے برطانیہ، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئر لینڈ کی پانچ ہزار ملازمت پیشہ عورتوں کے انٹرویو کا اہتمام کرکے یہ جائزہ پیش کیا ہے، کہتی ہیں "It is time for super woman to put back in her box."یعنی وقت آگیا ہے کہ سپر وومن واپس اپنے گھر کا رُخ کرے اور اپنی اصل ذمہ داریاں نبھائے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ سپر وومن کا یہ رول ماڈل ان عام عورتوں کے لیے قطعی سازگار نہیں جن کے پاس گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیےبچے کھلانے والی اناؤں، صفائی ستھرائی کرنے والی خادماؤں، پرسنل سیکرٹریوں اور ہیر ڈریسروں وغیرہ کی فوج نہیں ہے۔ سروے کے مطابق ہر دس میں سے آٹھ ملازمت پیشہ عورتوں کا خیال ہے کہ ماں اور باپ دونوں کی کل وقتی ملازمت خاندانوں کے ٹوٹنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت پیشہ عورتوں کے تعلقات اپنے شریکِ حیات کے ساتھ تلخ ہوجاتے ہیں کیونکہ بیشتر عورتیں سمجھتی ہیں کہ مرد اپنا بوجھ اتنا نہیں اُٹھاتے جتنا اُٹھا سکتے ہیں۔ یہ خیال84 فیصد عورتوں نے ظاہر کیا ہے۔ اس کے باوجود ایک تہائی عورتوں کے لیے اپنی ملازمت چھوڑ کر اپنے آپ کو گھر کے لیے
Flag Counter