فقہ واجتہاد صلاح الدین یوسف[1] عورت کو حق طلاق تفویض کرنا، شریعت میں تبدیلی ہے! پاکستان میں حکومت کے مجوزہ نکاح فارم کی ایک شق میں یہ درج ہوتا ہے کہ خاوند نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کیا ہے یا نہیں؟... اکثر لوگ تو اس شق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اثبات یا نفی (ہاں یا نہیں) میں کچھ نہیں لکھتے۔ لیکن بعض لوگ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ نکاح کے موقعے پر تفویض طلاق کے اس حق کو تسلیم کیا جائے اور وہ اس شرط کو لکھواتے یعنی منواتے ہیں کہ عورت کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب چاہے اپنے خاوند کو طلاق دے سکتی ہے اور اس طرح کے واقعات اب پیش آنے لگے ہیں کہ ایسی عورتیں جن کو حق طلاق تفویض کیا گیا، انھوں نے اپنے خاوندوں کو طلاقیں دے دیں۔ علماے احناف اور دیگر فقہا تو اس تفویض طلاق کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس کی و جہ وہ فقہی جمود ہے جس میں وہ مبتلا ہیں، اس لیے عدمِ دلیل کے باوجود وہ اس بنا پر اس کے قائل ہیں کہ ان کے فقہانے اس کو تسلیم کیا ہے۔ بنابریں وہ عورت کے طلاق دینے کی و جہ سے میاں بیوی میں جدائی کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔لیکن بعض علماے اہلحدیث بھی اس کے جواز کا فتویٰ دے دیتے ہیں۔ غالباً انھوں نے مسئلے کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا یا عورتوں کے 'حقوق' کے شور میں اس کی شاید ضرورت ہی محسوس نہیں کی، اس لیے وہ بھی جواز کے قائل ہو گئے!! راقم کے پاس بھی یہ استفسار آیا اور اس میں بعض علماے اہلحدیث کی طرف سے اس کے اثبات کا حوالہ بھی دیا گیا۔ اس بنا پر ضرورت محسوس ہوئی کہ مسئلے کی نوعیت کو شرعی دلائل کی روشنی میں واضح اور منقح کیا جائے تاکہ ایک طرف مسلک ِتفویض کے حامل علماے احناف کے |