اللہ تعالیٰ میں فرق کیا ہے؟ کیا صرف عطائی کے حیلے سے شرک سے نکل کر توحید کے علمبردار بنا جا سکتا ہے ؟ مکہ والے بھی تو اپنے معبودوں کو عطائی ہی مانتے تھے۔[1] جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہجویری جنہیں یہ لوگ داتا اور گنج بخش کے نام سے یاد کرتے اور حاجت روا پکارتے ہیں، فرماتے ہیں: ''اے علی! مخلوق تجھے داتا اور گنج بخش کے نام سے یاد کرتی ہے حالانکہ تو اپنےپاس کچھ بھی نہیں رکھتا۔اس بات کو اپنے دل میں جگہ مت دے کیونکہ یہ پندار و غرور کی بات ہے۔ گنج بخش اور رنج بخش ذات حق ہی ہے جو کہ بے چون و بے چگوں ہے اور بے شبہ و بے تمون ہے۔ شرک مت کر جب تک کہ تو زندگی بسر کرے۔ وہ ذاتِ حق ہر طرح یکتا ہے اس کا کوئی بھی شریک نہیں ہے۔''[2] قارئین کرام ! اس اقتباس کو باربار بہ غور ملاحظہ فرمائیں اور غور کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہجویری تو داتا ،گنج بخش اور رنج بخش جیسے القاب کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی قرار دیتے ہیں کہ ایسے کام کرنا اور ان اختیارات کا مالک ہونا صرف ا للہ تعالیٰ کی ہی صفت ہے اور وہ اس میں یکتا و تنہا ہے، اس میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے کہ جو یہ کام کرسکے اور ان القاب سے نوازا اور پکارا جائے ،پھر وہ اُمت کے لوگوں میں شرک کے پائے جانے کا نہ تو انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اُسے قربِ قیامت کے ساتھ خاص قراردیتے ہیں بلکہ جب اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ جاہل لوگ اُنہیں بھی ایسے ناموں سے یاد کرنےلگے ہیں تو اس سے اعلانِ برا ت کرتے ہیں، منع فرماتے ہیں ، اوراپنے آپ کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ زندگی بھر کبھی ایسا خیال بھی دل میں نہ لانا اور پھر اللہ تعالیٰ کے علاوہ اپنے یا کسی دوسرے کے لئے ان ناموں کا استعمال کسی قسم کے عطائی وغیرہ حیلے تراشے بغیر علیٰ الاطلاق، شرک قرار دیتے ہیں اور دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا قرا ر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''گنج بخش اور رنج بخش ذات حق ہی ہے... شرک مت کر... وہ ذاتِ حق ہر طرح یکتا ہے، اس کا کوئی بھی شریک نہیں۔'' |