والی ماریان ہڈ کہتی ہے: ''پہلے جب میں امریکی پرچم پر نظر ڈالتی تو یہ مجھے سرخ، سفید اور نیلا دکھائی دیتا تھا ، مگر اب میں اس پر صرف خون کے رنگ دیکھتی ہوں۔ سرخ رنگ اس خون کی علامت ہے جو میرے بدن سے بہا۔نیلا رنگ ان چوٹوں کی نمائندگی کرتا ہے جو میرے جسم نے سہیں۔ اور سفید رنگ میرے خوفزدہ چہرے کا ہے۔ میں اپنے ملک کے لئے ماری پیٹی گئی اور میری عزت لوٹی گئی ۔ اسے کافی سمجھا جانا چاہیے۔''[1] (3) مغربی عورت کا حالِ زار: فطرت سے بغاوت کا نتیجہ! مغربی تہذیب نے ماں، باپ اور شوہر و بیوی کی حیثیت سے عورت اور مرد کے فطری دائرہ کار، صنفی و جسمانی تقاضوں اور نفسیاتی و جذباتی مطالبات کے کھلے فرق کو نظر انداز کرکے زندگی کے ہر میدان میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ لاکھڑا کرنے کی جو غلطی کی تھی، مغرب کی عورت کو درپیش مسائل اور ذلت انگیز حالات، جن کا کچھ ذکر سطور بالا میں ہوا، فی الحقیقت اسی غلطی کا نتیجہ ہیں۔ مغربی عورت گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ مردوں کی طرح معاشی جدوجہد میں بھی جوت دی گئی ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ کام ضرور کررہی ہے لیکن عملاً وہ مردوں کا دل بہلانے کا کھلونا بن گئی ہے۔ اس طرزِ زندگی کے کئی عشروں کے تجربے نے مغربی عورت پر یہ حقیقت روشن کردی ہے کہ آزادی و مساوات کے نام پر یہ سودا اُسے بہت مہنگا پڑا ہے۔ لہٰذا آج مغربی عورت دوبارہ گھر کی پناہ گاہ میں واپس جانے کی آرزو مند ہے۔ مغربی عورتوں میں اسلام کی حیرت انگیز مقبولیت کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات عورت کو گھر کا مرکز بناتی ہیں اور معاشی جدوجہد میں شرکت کی کوئی ذمہ داری اس پر عائد کیے بغیر محبت،عزت اور احترام کا وہ مقام دیتی ہیں، جس کا کوئی تصور مغربی معاشرے میں نہیں پایا جاتا۔ مسلمان ہونے والی مغربی خواتین اپنے قبولِ اسلام کے اسباب میں اسلام کے ان اوصاف |