ڈینوپوسٹ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی فوج میں اپنے مرد ساتھیوں کی ہوس کا نشانہ بننے والی ان مظلوم عورتوں کی دادرسی کے بجائے عموماً اُنہیں خاموش رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اُن کے خلاف جنسی تشدد کے مرتکب مجرموں کو عام طور پر کسی باز پرس اور سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ رپورٹ میں 'کولوریڈو ایئر فورس اکیڈمی' کے اسکینڈل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 142 کیس رپورٹ ہونے کے باوجود ایک ملزم کو بھی سزا نہیں دی گئی۔ ان رپورٹروں نے ایسی مزید مثالیں دیتے ہوئے لاس ویگاس میں 1991ء میں ہونے والے 'نیوی ٹیل ہک کنونشن' کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس موقع پر سو سے زائد افسروں نے درجنوں خاتون اہلکاروں کو جنسی طور پر ہراساں کیا مگر جب اس سلسلے میں نیوی کی طرف سے انکوائری ہوئی تو مجرم افسروں نے تحقیقاتی عمل کو بالکل سبوتاژ کرکے رکھ دیا اور ان میں سے ایک کو بھی سزا نہیں دی جاسکی۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ کا فوجی نظام یہ رعایت جن مجرموں کو دے رہا ہے، ان کےجرم کے اثرات و نتائج کیا ہیں اور جو عورتیں ان کی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں ، ان کی بقیہ زندگی کس طرح گزرتی ہیں۔ ڈینوپوسٹ نے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ایسی 60 عورتوں سے بات چیت کی جنہوں نے انتقام کے خوف یا مجرموں کے خلاف کسی کارروائی سے مایوس ہونے کی بنا پر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہیں رپورٹ درج نہیں کرائی تھی۔ اخبار لکھتا ہے کہ مجرمانہ حملوں کا نشانہ بننے والی درجنوں سابق فوجی خواتین اہلکاروں نے بتایا کہ اذیت کے اندرونی احساس کے سبب ان کے کیریئر تباہ ہوگئے۔ اُنہوں نے منشیات اور کثرت شراب نوشی میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جس سے ان کی زندگیاں برباد ہوگئیں۔ ماریان ہڈ ایسی ہی ایک مظلوم سابق امریکی سپاہی ہے۔اس نے اپنے کرب کا ا ظہار جن الفاظ میں کیا، وہ دل دہلا دینے والے ہیں، ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی فوج میں عورتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا شرمناک اور وحشیانہ سلوک کس طرح خود امریکہ کے خلاف نفرت کے فروغ کا سبب بن رہا ہے۔ سابق فوجی ہونے کے باوجود امریکی پرچم لہرانے سے انکار کرنے |