جوانی ایک نعمت ہے،جس کی قدر کرنا اور صحیح رخ پر ڈالنا بہت ضروری ہے۔دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ دینِ حق کی دعوت میں نوجوانوں کا بڑا کردار رہا ہے۔قرآن مجید میں اصحابِِ کہف کا تذکرہ موجود ہے۔جن کے دلوں نے ایمان کی دولت پاتے ہی ہر طرح کے ناز و نعم کو چھوڑ کر صحرا و بیاباں اور پہاڑوں کا رخ کیا۔حکومتِ وقت کی ریشہ دوانیوں سے بچنے اور اپنے ایمان کی دولت کو محفوظ کرنے کے لیے ہجرت کا راستہ اختیار کیا۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ان نوجوانوں کی ان الفاظ میں تعریف بیان فرمائی: ﴿نَحنُ نَقُصُّ عَلَيكَ نَبَأَهُم بِالحَقِّ ۚ إِنَّهُم فِتيَةٌ ءامَنوا بِرَبِّهِم وَزِدنـٰهُم هُدًى 13﴾[1] ''ہم آپ پر اُن کا قصہ برحق بیان کرتے ہیں کہ یہ چند نوجوان اپنے ربّ پر ایمان لائے تھے، اور ہم نے اُنھیں ہدایت میں ترقی دی تھی۔'' نوجوانی میں کسی کام کو کرنے کا جذبہ، ولولہ ،کسی معاملے کو عروج تک پہنچانے کی جراءت اور کسی حادثے سے مقابلہ کرنے کی عظیم قوت پائی جاتی ہے۔علم النفس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانی کا یہ عرصہ اس قدر نازک ہوتا ہے کہ اسے جو راہ مل جائے ،وہ اسے اپنا لیتا ہے۔قرآن مجید کی ایک لمبی چوڑی سورت (سورۃ یوسف) ایک صالح نوجوان کی عصمت و عفت اور ہمت وجرات کی مثال قائم کرتی ہے جس نے پاکیزگی و عفت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور پاک دامنی کا راستہ ہی اختیار کیا۔نوجوانی کے اس سنہرے دور کی قدر و قیمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے واضح ہو جاتی ہے۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِغْتَنِمْ خمساً قَبْلَ خمسٍ، شَباَبَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَ صِحَتَكَ قَبْلَ سُقمِكَ وَ غِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَ فَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَ حَیٰوتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ)) [2] ''پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔'' |