Maktaba Wahhabi

86 - 111
فوج میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی رپورٹنگ کے اس قدر کم ہونے کے اسباب بیان کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی نمائندہ خصوصی کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج کے تحکمانہ نظام کی وجہ سے زیادتی کا شکار ہونے والے شکایت کرنے کی صورت میں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اگر زیادتی کے ذمہ دار، متاثرہ فرد کے افسران میں سے ہوں تو ان کے خلاف شکایت کرنا محال کو ممکن بنانے کی کوشش کے مترادف ہوتا ہے اور متاثرین اکثر محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں اپنی فوجی ملازمت یا انصاف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ (پیرا گراف :27) رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرین کے وکلا نےبتایا کہ شکایت کرنے کی صورت میں متاثرین بااثر ملزمان کی جانب سے انتقامی کارروائی کا خوف رکھتے ہیں کیونکہ کمانڈر عام طور پر شکایت کرنے والوں کوملزمان کے انتقامی اقدامات سے تحفظ مہیا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔(پیرا گراف:28) خاتون رکن کانگریس کی گواہی سی این این کی 31/جولائی 2008ء کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے : ''کانگریس کی ایک خاتون رکن کے بقول اُن کا منہ اس وقت کھلا کا کھلا رہ گیا جب سابق فوجیوں کے ایک اسپتال میں فوجی ڈاکٹروں نے اُنہیں بتایا کہ دس میں سے چار عورتوں نے شکایت کی ہے کہ فوجی ملازمت کے دوران اُنہیں جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ ایک سرکاری رپورٹ کی رُو سے یہ تعداد اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ ڈی کیلیفورنیا سے کانگریس کی رکن جین ہرمین نے یہ انکشاف کانگریس کے ایک پینل کے سامنے بیان دیتے ہوئے کیا جو یہ تحقیق کررہا ہے کہ فوج میں جنسی زیادتیوں کے واقعات سےکس طرح نمٹا جاتا ہے۔ جین ہرمین نے بتایا کہ اُنہوں نے حال ہی میں لاس اینجلس میں سابق فوجیوں کے ایک اسپتال کا دورہ کیا، جہاں انہیں فوج میں عورتوں کی آبرو ریزی کی خوفناک کہانیاں سنائی گئیں۔''
Flag Counter