''جہاں تک جیلوں میں عورتوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کا تعلق ہے ، تو2008- 2009ء کی ایک رپورٹ نشاندہی کرتی ہے کہ بارہ مہینوں کی مدت میں امریکی جیلوں میں 4.7 فیصد عورتوں کو اپنےمرد قیدی ساتھیوں اور 2.1فیصد کو جیل کے عملے کے ارکان کے ہاتھوں مختلف نوعیت کی جنسی بدسلوکی، زیادتی، خوف و ہراس اور جنسی حملوں کا تجربہ ہوا۔ انسپکٹر جنرل کے دفتر سے جاری ہونے والی 2009ء کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جیل کے عملے کے مرد ارکان اکثر قیدی عورتوں کی جامہ تلاشی کے دوران جنسی چھیڑ چھاڑ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عملے کے یہ ارکان اپنے اختیارات اور طاقت کے بل پر قیدی عورتوں کو زبردستی جنسی تعلق پر مجبور کرتے ہیں۔'' ''قیدی عورتوں کے جیل کے ساتھیوں سے انٹرویوز سے پتہ چلا کہ قیدی عورتیں بعض اوقات ٹیلیفون تک رسائی ، کھانے پینے کی اشیا اور صابن اور شیمپو جیسی چیزوں کے حصول تک کے لیے جنسی زیادتی قبول کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔اس کے نتیجے میں اُن میں سے بہت سی پوری زندگی کے لئے ذہنی انتشار ، بے چینی اور ڈپریشن جیسے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتی ہیں ، حتیٰ کہ ان تلخ اور ذلت آمیز واقعات کوبھلا نہ پانے کی بنا پر اُن میں سے بہت سی عورتیں خود کشی تک کرگزرتی ہیں۔ (پیرا گراف: 32، 33) [1] فوج میں جنسی زیادتی روز کامعمول درج بالا سرخی کے تحت رپورٹ میں کہا گیا ہے: ''فوج کے اندر عورتوں پر جنسی حملے اور اُنہیں خو ف زدہ کرنے کو عورتوں کے خلاف تشدد کی ایک وسیع قسم کے طور پر امریکہ میں بلا تأمل تسلیم کیا جاتا ہے۔ وکلا بتاتے ہیں کہ عورتیں جب فوج کی ملازمت اختیار کرتی ہیں تووہ نہ صرف جنگ و جدل کے حوالے سے جسمانی خطرات مول لیتی ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کی جانب سے جنسی حملوں کے خطرے کا سامنا بھی کرتی ہیں۔جنسی حملوں کا سامنا اگرچہ مردوں اور عورتوں دونوں کو کرنا پڑتا ہے ، تاہم دستیاب اعداد شمار ظاہر کرتے ہیں کہ نشانہ بننے والوں میں |