Maktaba Wahhabi

80 - 111
آبرور ریزی کے مجرموں کی سزا یابی کی شرح میں مسلسل کمی برطانوی وزارتِ داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جو گارجین کی 21 جولائی 2007ء کی اشاعت میں''آبروریزی کے مجرموں کی سزا یابی کی شرح میں اضافے کی کوششیں ناکام''"Efforts fail to improve rape conviction rates" کے عنوان سے شائع ہوئی، بتایا گیا ہے کہ عورتوں کی آبرو ریزی کے مجرموں کی سزا یابی کی شرح پست ترین سطح تک گرچکی ہے۔Sandra Laville کی ا س رپورٹ کے مطابق حکومت، پولیس اور پراسیکیوٹرز کی کوششوں کے باوجود اس شرح میں اضافہ نہیں ہورہا اور کئی سال سے یہی کیفیت ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2003ء اور 2004ء میں پولیس کو رپورٹ کیے جانے والی عصمت دری کی و ارداتوں میں صرف چھ فیصد ملزمان کو سزا ہوئی جبکہ 1970ء کی دہائی میں یہ شرح 32 فیصد تھی۔[1] آبرور ریزی کے مجرموں کی سزا یابی کی اتنی کم شرح پر "Rape: a history from 1860 to present" نامی کتاب کی مصنفہJoanna Bourke لکھتی ہیں: ''عصمت دری کے جن مجرموں کے مقدمات کا نتیجہ سزا کی شکل میں نکلے اُنہیں اپنے آپ کو استثنائی طور پر بدقسمت سمجھنا چاہیئے۔''[2] اس کے ساتھ ساتھ جنسی جارحیت کا نشانہ بننے والی خواتین کی دیکھ بھال کے مراکز کی تعداد اور ان کے لئے مختص کی جانے والی رقم میں بھی مسلسل کمی ہورہی ہے۔گارجین میں تین جولائی 2007ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انگلستان اور ویلز میں 'ریپ کرائسز سنٹرز' کی تعداد 1985ء میں 84 تھی جو 2007ء میں گھٹ کر صرف 32 رہ گئی اور ان میں سے بھی نصف کو قلتِ وسائل کے سبب بندش کے خطرے کا سامنا تھا۔[3] 'لندن میٹروپولیٹن یونیورسٹی'میں جنس زدہ تشدد کے مضمون کی پر وفیسرLiz Kelly
Flag Counter