اطلاع دے کر اُسے بچانے کی کوشش کریں گے جبکہ کسی گھر میں کسی مرد کی جانب سے اپنی بیوی یا دوست عورت پر تشدد کیے جانے کی صورت میں پولیس کو اطلاع دینے پر صرف 53 فیصد نے آمادگی ظاہر کی۔[1] گھر، عورتوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ اس تکلیف دہ اور شرمناک صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ممتاز برطانوی دانشور اور تجزیہ کارIan Sinclairاپنے تجزیے'عورتو ں کے خلاف تشدد' (Violence Against Women) کے زیر عنوان میں کہتے ہیں: ''عورتوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے ہمیں پورے معاملے پر از سر نو سوچ بچار کی ضرورت ہے۔مین اسٹریم میڈیا اگرچہ مسلسل اجنبیوں کے خطرے کا غوغا برپا کیے ہوئے ہے،مگر فی الحقیقت عورت کے لئے سب سے خطرناک جگہ اس کا اپنا گھر ہے۔ اکثر اسے آرام دہ اور محفوظ جنت تصور کیا جاتا ہے لیکن عملاً یہ ایسی جگہ ہے جہاں اُسے خوف، زخم اور بعض اوقات موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جیسے کہ برطانیہ میں ہر ہفتے دو عورتیں اپنے موجودہ یا سابقہ مرد آشناؤں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔''[2] گھروں میں یہ سب کچھ کیوں کر ممکن ہوتا ہے؟ ...اس گتھی کو سلجھاتے ہوئے یونیورسٹی آف بریسٹول کے 'وائلنس اگینسٹ ویمن ریسرچ گروپ' کی ڈائریکٹر گل ہیگ(Gill Hague)کہتی ہیں: ''گھر بہر صورت بند دروازوں کے پیچھے ، عام لوگوں کی نگاہوں سے دور، پرائیویسی اور دوسرے لوگوں کے معاملات میں عدم مداخلت کے گفتہ و ناگفتہ قوانین کے فراہم کردہ تحفظ کا حامل ہے۔''[3] |