مجبور کردی جانے والی درآمد شدہ عورتوں کے حوالے سے حقیقت واضح کرتا ہے۔ انتھونی نے اس مسئلے کےحل کے لئے کل جماعتی پارلیمانی گروپ بھی بنایا تھا۔ تاہم اس ضمن میں بننے والے قانون پر اُن کا کہنا تھا کہ یہ بات باعثِ افسوس ہے کہ انسانی تجارت کی روک تھام کے لئے تشکیل دی جانے والی حکمتِ عملی میں اصل زور بے بس عورتوں کے مسئلے کے بجائے سیاسی معاملات پر دیا گیا ہے، اُن کے بقول : ''حکومت کی جانب سے انسانی تجارت کے مسئلے کو ترجیح دینے کا دعویٰ حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا، انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے اس قانون کو تارکین وطن کے بجائے انسانوں کی تجارت کرنے والوں کے خلاف اور ان کا نشانہ بننے والوں کے لئے ہمدردی پر مبنی ہونا چاہیے تھا۔''[1] برطانیہ میں عورتوں پر گھروں میں تشدد مغرب کی تہذیبی اقدار کے مثالی مرکز انگلستان میں عورتوں کے ساتھ گھروں میں ان کے شوہروں یا بوائے فرینڈز وغیرہ کی جانب سے جو سلوک روا رکھا جاتا ہے ، اس بارے میں سرکاری اور دیگر معتبر ذرائع کے فراہم کردہ کچھ اہم اعداد و شمار ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں: [2] 1. 45 فیصد عورتیں کسی نہ کسی نوعیت کے گھریلو تشدد کے تجربے سے گزرتی ہیں مثلاً جنسی زیادتی یا خوف زدہ کیا جانا۔[3] 2. تقریباً 21 فیصد لڑکیاں بچپن میں کسی نہ کسی قسم کی جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔[4] 3. ہر سال کم از کم 80ہزار عورتیں زنا بالجبر کا نشانہ بنتی ہیں۔[5] 4. ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک سروے کے مطابق سوال کا جواب دینے والے چار میں سے ایک شخص کا خیال تھا کہ زنا بالجبر کا نشانہ بننے والی عورت اس عمل کی جزوی یا کلی طور پر |