ان حقائق کو سامنے لانے کا سہراCCAT نامی ادارے کے سر ہے جو 'کرائیڈن کمیونٹی اگینسٹ ٹریفکنگ' کا مختلف ہے۔ کرائیڈن (Croydon) جنوبی لندن کا علاقہ ہے۔ یہاں وزارتِ داخلہ کے دفاتر واقع ہیں جن میں بارڈر اور امیگریشن ایجنسی بھی شامل ہیں لہٰذا اس علاقے میں یہ کاروبار زیادہ آسان ہے۔نتیجہ یہ کہ گارجین کے الفاظ میں یہاں ''جنسی ہوس پوری کرنے کےلئے درآمد کی گئی عورتوں کی خریداری اتنی ہی سہل ہے جیسے پیزا کا آرڈر دینا۔'' خبر کے مطابق علاقے میں اس کاروبار کے تیزی سے پھلنے پھولنے کی وجہ سے مقامی لوگوں نے پریشان ہوکر اپنے طور پر معاملات کی تحقیق کی کوشش کی تاہم انتقامی کارروائی کے خوف سے اُنہوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کا اہتمام کیا۔ اُنہوں نے سٹے بازوں کی حیثیت سے سو قحبہ خانوں، حماموں(Saunas) اور اسکارٹ ایجنسیوں کو فون کیے جن کے اشتہارات مقامی اخبارات میں شائع ہوئے تھے اور پھر یہ جان کرششدر رہ گئے کہ عصمت فروشی کے لیے بیچی جانے والی 84 فیصد عورتیں بیرونِ ملک سے لائی گئی تھیں ، اور ان میں سے اکثر غیر قانونی طور پر خریدی اور بیچی گئی تھیں۔[1] مظلوم عورتوں کو 2011ء میں بھی قانونی تحفظ نہیں ملا برطانیہ میں عورتوں کی یوں بے روک ٹوک تجارتی سطح پر درآمد اور اُنہیں عصمت فروشی پر مجبور کیے جانے کے خلاف آواز اُٹھائی گئی اور حکومت نے انسانی ٹریفکنگ کے خلاف 2011ء میں قانون سازی بھی کی لیکن ماہرین کے بقول یہ قانون سازی برطانیہ میں جبری عصمت فروشی کے لیے عورتوں کی درآمد پر اثر انداز نہیں ہوگی بلکہ روزگار کے لیے برطانیہ کا رخ کرنے والے عام تارکین وطن کی آمد کو روکنے تک محدود رہے گی۔ گارجین کی 2 جولائی 2011ء کی اشاعت میں "New trafficking laws, will not care for slavery victims"کی سرخی کے تحت 'ہیومن ٹریفکنگ فاؤنڈیشن' کے سربراہ اور 2010ء تک پارلیمنٹ کے رکن رہنے والے انتھونی اسٹین کا بیان عصمت فروشی پر |