کی اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ FTSE 100 کی 20 فی صد کمپنیوں کے بورڈوں میں کوئی خاتون ڈائریکٹر شامل نہیں ہے جبکہ اعلیٰ انتظامی عہدوں میں سے صرف پانچ فی صد پرعورتیں فائز ہیں۔ڈیلائٹ کی ٹیم میں شامل کیرول ایرواسمتھ کے بقول ایسی کمپنیوں کی تعداد بلاشبہ ہولناک ہے جن کے بورڈز میں کوئی خاتون رکن نہیں۔ یہ بات خاص طور پر باعثِ تشویش ہے کہ 10سال کے دوران بورڈز آف ڈائریکٹر میں عورتوں کا تناسب 5 سے بڑھ کر صرف 9 فی صد تک پہنچا ہے۔ اس شرح سے بورڈز میں عورتوں کی نمائندگی کے 30 فی صد تک پہنچنےمیں مزید 20 سال لگیں گے جو 'تھرٹی پرسنٹ کلب' کا ہدف ہے۔''[1] برطانیہ کی 'سیکس انڈسٹری' کو سالانہ چار ہزار عورتوں کی فراہمی گارجین کی 22/اگست 2007ء کی اشاعت میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں ہر سال ناقابل یقین تعداد میں عورتیں عصمت فروشی کے کاروبار کے لئے مختلف ملکوں سے لائی جاتی ہیں۔'مارکیٹ فورسز' کی سرخی والی اس خبر کی ذیلی سرخی کے الفاظ ہیں: ''بہت سے مرد جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے عورتوں کی خریداری کو محض شاپنگ کی ایک اور قسم سمجھتے ہیں، لیکن ان کا یہ طرزِ عمل اس کاروبار کے لئے عورتوں کی غیرقانون تجارت اور درآمد (ٹریفکنگ) کو تیز ی سےبڑھا رہا ہے۔'' رپورٹ میں کیا گیا یہ انکشاف مغربی تہذیب کے اس عظیم مرکز میں عورتوں کے مقام ومرتبےکی بلندی کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ ''سرکاری اعداد و شمار سے یہ تخمینہ سامنے آتا ہےکہ برطانیہ میں ہر سال کوئی چار ہزار عورتیں سکڑتی ہوئی سرحدوں اور سیکس کی خریداری کے حوالے سے بدلتے ہوئے رویوں سے مہیا ہونے والی سہولتوں کی بنا پر فروغ پذیر سیکس انڈسٹری کی مانگ پوری کرنے کے لئے درآمد کی جاتی ہیں۔'' |