دس ہزار پونڈ کم لے رہی ہیں۔'' خبر کاآغاز یوں ہوتا ہے : ''عورتوں کو رائے دہی کا مساوی حق تو1928ء سے حاصل ہے مگر تنخواہوں میں برابری کے لئے اُنہیں مزید 98 سال انتظار کرنا پڑسکتا ہے ۔ یہ بات ایک ریسرچ کےنتیجے میں سامنے آئی ہے۔'' خبر میں مزید کہا گیا ہے کہ ''خواتین ایگزیکٹیوز کی تنخواہیں اگرچہ اپنے مرد ساتھیوں کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہیں لیکن اگر اضافے کی رفتار وہی رہی جو اب ہے تو باہمی فرق ختم ہوتے ہوتے سن 2109ء آجائے گا، یہ انکشاف چارٹرڈ مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ نےکیا ہے۔ ریسرچ کی رُو سے مرد منتظمین کو یکساں ذمہ داریوں کے لئے بدستور عورتیں سے زیادہ معاوضہ دیا جارہا ہے، عورتوں کی 31895 پاؤنڈ تنخواہ کے مقابلے میں مردوں کو اوسطاً 42441 پاؤنڈ دیے جارہے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق پچھلے سال تنخواہوں میں جو فرق 10031 پاؤنڈ تھا، وہ بڑھ کر 10546 پاؤنڈ ہوگیا ہے، باوجود یہ کہ فروری 2011ء تک بارہ مہینوں میں عورتوں کی تنخواہیں مردوں کی 2،1 شرح کے مقابلے میں 2،4 کی شرح سے بڑھیں۔''[1] بیس فی صد بڑی کمپنیوں کی انتظامیہ میں عورتوں کا حصہ صفر گارجین کی 13/اکتوبر 2011ء کی ایک خبر کے مطابق برطانیہ کی بڑی کمپنیوں کے ڈائریکٹروں میں عورتوں کا حصہ ہولناک حد تک کم ہے۔ "Shocking, lack of women top company directors"کی سرخی کے تحت شائع ہونےوالی اس خبر میں، جس کی بنیاد'ڈیلائٹ' نامی ادارے کی ایک ریسرچ ہے، کہا گیا ہے: ''برطانیہ کی سب سے بڑی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں عورتوں کا ہولناک حد تک کم تناسب جمعرات کو منظر عام پر آنے والے ایک تجزیے سے عیاں ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھرتیوں کی موجودہ شرح سے بورڈ رومز میں یہ فرق 20سال میں تین ڈائریکٹروں میں سے ایک کے عورت ہونے تک پہنچے گا۔ڈیلائٹ |