اور کو وکیل بنانے کے بجائے عورت ہی کو وکیل بنا دیتا ہے یا یہ کنائی صورت ہے کیونکہ اس میں فیصلہ کن رائے خاوند ہی کی ہو گی کہ اگر عورت نے علیحدگی پسند کرلی ہے تو یہ کون سی طلاق شمار ہو گی، رجعی یا بائنہ، ایک یا تین؟ ایک رجعی شمار کرنے کی صورت میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ اس سے زیر بحث تفویض طلاق کا اثبات کرنے والوں سے ہمارے چند سوال ہیں: 1. تفویض طلاق والی عورت اگر خاوند کو طلاق دے دیتی ہے تو کیا اس میں خاوند کی نیت کا اعتبار ہو گایا نہیں؟ 2. اگر خاوند کہے کہ میری مراد اس تفویض طلاق سے ایک طلاقِ رجعی تھی، تو کیا خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا؟ 3. اوراگر رجوع کا حق حاصل ہو گا تو پھر تفویض طلاق کی شق ہی بے معنیٰ ہو جاتی ہے، کیونکہ جو عورت بھی اس حق کو استعمال کرتے ہوئے خاوند کو طلاق دے گی تو خاوند رجوع کر لیا کرے گا۔ 4. اگر تفویض طلاق میں طلاقِ بائنہ ہو گی تو پھر یہ صورت أَمْرُكِ بِيَدِكِ میں کس طرح آسکتی ہے جس کو اس کے جواز میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے؟ جبکہ أَمْرُكِ بِيَدِكِ کی صورت میں طلاق بائنہ نہیں ہو گی جیسا کہ آثار سے واضح ہے۔[1] تیسرا اشکال: توکیل(وکیل بنانے) کی اجازت ایک تیسری اصطلاح 'توکیل' ہے، یعنی ایک جائز کام کو خود کرنے کے بجائے کسی دوسرے شخص سے کرایا جائے۔ شریعت نے اس کو جائز رکھا ہے، اس کو نیا بت بھی کہا جاتا ہے۔ طلاق دینا بھی (ناگزیر حالات میں) جائز ہے اور یہ صرف خاوند کا حق ہے، تاہم خاوند اپنا یہ حقِ طلاق وکیل کے ذریعے سے |