Maktaba Wahhabi

69 - 111
استعمال کرے تو دوسرے معاملات کی طرح یہ توکیل بھی جائز ہے۔ قرآن کریم کی آیت: ﴿وَإِن خِفتُم شِقاقَ بَينِهِما فَابعَثوا حَكَمًا مِن أَهلِهِ وَحَكَمًا مِن أَهلِها...35﴾[1] " میں جمہور علما کے نزدیک حَکَمَیْن کے 'توکیل بالفُرقہ' ہی کے اختیار کا بیان ہے۔ اسی توکیل میں وہ خاص صورت بھی شامل ہے جو پنچایتی توکیل کی ضرورت پیدا کر دیتی ہے، مثلاً: ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتا حتیٰ کہ بیوی بار بار اپنے میکے آجاتی ہے اور خاوند بار بار حسن سلوک کا وعدہ کرکے لے جاتا ہے لیکن وعدے کے مطابق حسن سلوک نہیں کرتا، بالآخر لڑکی کے والدین تنگ آکر اس سے وعدہ لیں کہ اس دفعہ عہد کی پاسداری نہیں کی تو ہم آئندہ اس کو تمہارے پاس نہیں بھیجیں گے، خاوند سے پنچایت میں یہ اقرار لیا جائے۔ اس صورت میں یہ پنچایت' توکیل بالفرقہ' کا کردار ادا کرکے دونوں کے درمیان جدائی کروا دے۔ پنچایت یا عدالت کا یہ فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہو جائے گا، جیسے خلع میں عدالت کا فیصلہ فسخ نکاح سمجھا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں بھی عدالت کے اقربا خاوند سے تفویض طلاق کا مطالبہ نہیں کر سکتے کہ تم بیوی کو حق طلاق تفویض کرو، یعنی معاہدۂ حسن سلوک کی پاسداری نہیں کی گئی تو بیوی حق طلاق استعمال کرے گی بلکہ خلع کی طرح پنچایت یا عدالت ہی علیحدگی کا فیصلہ کرے گی۔ خلع اور اس توکیل میں فرق یہ ہے کہ خلع میں حق مہر واپس لینے کا حق خاوند کو حاصل ہے جب کہ پنچایتی فیصلے میں خاوند کو یہ حق نہیں ہو گا کیونکہ یہ جدائی خاوند کے اقرار یا وعدے کی بنیاد پر ہو گی۔ دوسرے، توکیل کی و جہ سے یہ جدائی طلاق کے قائم مقام ہو گی۔ چوتھی نوعیت: تفویض طلاق؟ چوتھی اصطلاح، تفویض طلاق ہے جس کی اجازت فقہاے احناف اور دیگر بعض فقہا دیتے ہیں لیکن شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے گزری۔ کیونکہ بیوی کو حق طلاق تفویض کرنے میں ان تمام حکمتوں کی نفی ہے جو حق طلاق کو صرف مرد کے ساتھ خاص کرنے میں مضمر ہیں۔
Flag Counter