Maktaba Wahhabi

67 - 111
خیارِ طلاق سے مختلف صورت ہے کیونکہ اسے اگر خیارِ طلاق کی وہی صورت قرار دیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواجِ مطہرات کے سلسلے میں اختیار فرمایا تھا تو اس سے میں بھی طلاق کا حق مرد ہی کو حاصل تھا، اور امرک بیدک میں یہ اختیار عورت کو دے دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ طلاقِ کنائی بنے گی اس لیے کہ یہ طلاق ،طلاقِ رجعی ہو گی یا بائنہ؟ اس کا فیصلہ خاوند کی نیت کے مطابق ہو گا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس محمد بن عتیق نامی ایک شخص آیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا بات ہے، روتے کیوں ہو؟ اُس نے کہا: میں نے اپنی عورت کو اس کے معاملے کا مالک بنا دیا تھا تو اُس نے مجھ سے جدائی اختیار کر لی ہے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ کہنے لگا: بس اسے تقدیر ہی سمجھ لیں۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تو رجوع کرناچاہتا ہے تو رجوع کرلے، یہ ایک ہی طلاق ہے اور تو رجوع کرنے کا اس عورت سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ایک دوسرا قول یہ نقل ہوا ہے اور اسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی قول بتلایا گیا ہے کہ القضاء ما قضت (عورت جو فیصلہ کرے گی وہی فیصلہ ہوگا)، یعنی اس کے کہنے کے مطابق اسے طلاقِ رجعی یا بائنہ، ایک یا تین شمار کیا جائے گا کیونکہ معاملہ اس کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اور ایک تیسری رائے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر عورت اسے تین طلاق شمار کرے اور خاوند کہے کہ عورت کو طلاق کا مالک بناتے وقت میری نیت ایک طلاق کی تھی، تین طلاق کا انکار کرے جس کا فیصلہ عورت نے کیا تھا، تو خاوند سے قسم لی جائے گی اور پھر اسے ایک ہی طلاق شمار کرکے خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق دیا جائے گا۔[1] ان آثار سے، قدرے اختلاف کے باوجود، یہ واضح ہے کہ لڑائی جھگڑے کی صورت میں عورت کو علیحدگی کا اختیار دینا، زیر بحث تفویض طلاق سے یکسر مختلف معاملہ ہے جس کا جواز ان آثار سے کشید کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ أَمْرُكِ بِیَدِكِ کی صورت یا تو توکیل کی بنتی ہے کہ مرد کسی
Flag Counter